کون سچ بول رہا ہے، صدر یا وزیراعظم

376

اب یہ سوال پیدا بلکہ مستحکم ہو گیا ہے کہ ملک میں حکومت کس کی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان نیازی ہی حکمران ہیں تو ان کی بات کو درست سمجھا جانا چاہیے۔ لیکن وہ جس طرح اپنے ہر اعلان، بیان اور فیصلے سے یوٹرن لیتے ہیں اس کے بعد یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ عمران خان کی بات پر یقین کیا جائے۔ لیکن کیا کریں ان ہی کی پارٹی کے اہم رکن پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے تمام اعلانات کو پانی کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران نیازی نے صرف دو روز قبل کہا کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے۔ اب روپیہ غیر مستحکم ہوا تو بھی معیشت کو نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن صدر مملکت برآمد کنندگان میں ایوارڈز کی تقسیم کے موقع پر فرماتے ہیں کہ معیشت بہتر نہیں ہورہی، تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اس موقع پر انہوں نے مغربی ممالک کو پالیسیاں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ پاکستانیوں کا پرانا خواب یہ کہہہ کر دہرایا کہ مسلم اقوام باہم تجارت کو فروغ دیں۔ سدر مملکت نے اگرچہ حکمرانوں کے روایتی عذر بھی پیش کیے کہ کرپشن اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے معیشت بہتر نہیں ہو رہی ہے۔ اگر پندرہ ماہ بعد ڈاکٹر کسی مریض کو یہ بتائے کہ آپ کو بخار ہے اور اس کا سبب آپ کے لباس اور خوراک کی کمی ہے تو کیسا محسوس ہوگا۔ اس عرصے میں تو بخار نمونیا بن جائے گا۔ جس انداز میں صدر مملکت نے معیشت کی خرابی کی تشخیص کی ہے وہ کسی سمجھدار اور ذمے دار حکمران کا طریقہ نہیں ہے۔ پندرہ ماہ میں کرپشن اور درآمدات میں کسی قدر اضافہ ہوگیا ہے اس کا اندازہ انہیں تو نہیں ہے۔ ان کی پارٹی تو آئی ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے تھی لیکن انہوں نے کرپشن کا نام نواز شریف اور آصف زرداری رکھ دیا پوری حکومتی مشینری ایک ہی قوالی گا رہی ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہیں اور زرداری چور ہیں۔ قوم نے اس سے کبھی انکار نہیں کیا لیکن یہ لوگ کس طرح بدعنوانی کرتے تھے ان طریقوں کو اور راستوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ اب تک تو کرپشن رک جانی چاہیے تھی اور جناب درآمدات میں اضافے کا ذمے دار کون ہے حکومتی پالیسیاں ہی تو درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی کرواتی ہیں صدر مملکت نے برآمد کنندگان کو ضرور بتایا ہوگا کہ درآمدات کیوں بڑھ رہی ہیں اور برآمدات کے فروغ کے لیے حکومت نے 15 ماہ میں کیا اقدامات کیے ہیں۔ اتنے عرصے میں کم ازکم برآمد کنندگان کو تو پتا چل ہی جانا چاہیے تھا کہ حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں اور وہ درست سمت میں چل رہی ہے یا نہیں، صدر مملکت فرماتے ہیں کہ مسلم اقوام باہم تجارت کو فروغ دیں۔ لیکن یہاں تو غیر مسلم بھارت، غیر مسلم چین اور غیر مسلم امریکا کے ساتھ ہی سارے تعلقات پر اصرار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم ممالک کا قبلہ بھی یورپ اور امریکا ہے اور اسرائیل سے تعلقات تو عربوں کی کمزوری بن رہے ہیں اس کے لیے وہ اس طرح بچھے جا رہے ہیں جس طرح عمران خان نیازی کرتارپور کے لیے بچھے جا رہے تھے۔ ہمارے صدر کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح بولتے ہیں اس کا اندازہ ان کے خطاب سے ہوگیا۔ وہ مغربی ممالک کو پالیسیاں تبدیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ مغربی ممالک پاکستانی صدر کے مشورے پر اپنی پالیسیاں کیوں تبدیل کریں گے۔ آزاد اور خود مختار ممالک اپنی پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق بناتے ہیں۔ کسی طاقتور ملک کے مشورے پر پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی کجا کہ پاکستان کا صدر ایسا مشورہ دے۔ ہمارے حکمران دنیا بھر میں کشکول لیے گھوم رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان ساری دنیا میں پاکستان کی خرابیوں، کرپشن، سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی چوریوں کی باتیں کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گااور کون ایسے ملک کے صدر کے کہنے پر پالیسی بدلے گا۔ اور پاکستانی برآمدات بڑھانے کے لیے مقامی برآمد کنندگان کو پاکستانی حکمران کیا دیتے ہیں۔ بجلی کی مسلسل فراہمی، امن وامان، سڑکیں، صفائی ستھرائی، پانی کی فراہمی، کون سی چیز ہے جو حکومت برآمدکنندگان کے لیے آسان بنا رہی ہے۔ صدر مملکت کے خطاب کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ سچ کون بول رہا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے اور صدر مملکت کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر نہیں ہو رہی۔ حکومت کہنے کو تو پی ٹی آئی کی ہے لیکن صدر اور وزیراعظم اس ایک معاملے میں بھی ایک پیج پر نظر نہیں آتے تو پھر کون یہ ملک چلا رہا ہے۔ صدر وزیراعظم اور وزراء میں سے کسی کو ملکی معاملات کا کوئی علم نہیں سب بیان بازی کے ماہر ہیں۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑھک مارنے میں مصروف ہیں۔