عالمی ادارے ای سی اے کے مطابق افراط زر میں ہوشربا اضافے کے باعث آئندہ سال بھی پاکستانی شہریوں کے لیے مشکل ترین سال ہوگا ۔ ای سی اے نے کہا ہے پاکستان میں تنخواہوں میں اضافہ محض دس فیصد کیا گیا ہے جبکہ مہنگائی کا اندازہ 13 فیصد سے زاید ہے جس کے باعث ملازمین کی قوت خرید میں کمی واقع ہوگی ٍ۔ اس طرح سے عملی طورپر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے تین فیصد کمی ہی واقع ہوگی ۔ حکومت کی جانب سے کیا جانے والا تنخواہوں میں اضافہ بھی صرف سرکاری اداروں میں کیا گیا ہے جبکہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی حالت انتہائی دگرگوں ہے ۔ عمران خان نیازی نے برسراقتدار آتے ہی جو معاشی پالیسیاں اختیار کیں ان کے نتیجے میں نجی شعبے میں روزگار میں سکڑاؤ پیدا ہوا ہے ، صنعتی ادارے بند ہورہے ہیں اور تجارت بھی سکڑ کر رہ گئی ہے ۔ اس کے باعث روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے بجائے بیروزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوا ہے ۔ عمران خان نیازی کے چہیتے وزیر فواد چودھری کے بعد اب ان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بھی صاف فرمادیا ہے کہ حکومت کا کام روزگار دینا نہیں ہے ۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ حکومت پہلے ایسی پالیسی بناتی ہے جس سے لوگ بے روزگار ہو کر دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے لیے لنگر خانے اور راشن گھر کھولنے کی نوید سناتی ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ کروڑوں افراد کو سرکاری شعبے میں نوکری فراہم نہیں کی جاسکتی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ حکومت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دے کہ ملک میں معاشی استحکام پیدا ہو اور صنعت و حرفت کو فروغ حاصل ہو ۔ ملک میں جب معاشی سرگرمیوں میں پھیلاؤ آتا ہے تو خود بخود روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور حکومت کو آمدنی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ مگر عمران خان نیازی کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہونے کے نقطے سے بھی نیچے چلی گئی ہیں اور ہر طرف کساد بازاری کا دور دورہ ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر عمران خان نیازی کی ٹیم شرح سود میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کی وجہ ہی بتادے ۔ صرف ان دووجوہات نے ملک کی معاشی صورتحال کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ۔ اس وجہ سے درآمدات کی مالیت تقریباً دگنی ہوگئی اور ملک میں جاری منصوبوں کے لیے بینکوں سے سرمائے کا حصول ناممکن ہوگیا ۔ درآمدات کی مالیت دگنا ہونے کی بنا پر پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بھی بڑھانا پڑی ۔ چونکہ پاکستان میں بجلی کا بڑا حصہ فرنیس آئل سے پیدا ہوتا ہے ،اس لیے بجلی کی قیمت میں خودکار طریقے سے اضافہ ہوگیا ۔اس کے علاوہ پاکستان نے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے بجلی خریدنے کا معاہدہ پاکستانی کرنسی کے بجائے ڈالر میں کیا ہوا ہے ، اس کے اثرات علیحدہ سے بجلی کے بل پر پڑے۔ پاکستان اپنے ملک سے نکلنے والی قدرتی گیس بھی عالمی قیمت کے مطابق ڈالر میں خریدتا ہے ، یوں قدرتی گیس کے دام بھی اسی تناسب سے بڑھ گئے ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے مل کر ہر چیز کی قیمت کو پر لگا دیے اور ان کی مالیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ۔ اس کے اثرات عام آدمی بھگت رہا ہے کہ اب کوئی سبزی بھی ایک سو روپے فی کلو سے کم پر دستیاب نہیں ہے ۔ یہ سب کیا دھرا تو عمران خان نیازی کی ٹیم ہی کاہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے مگر وہ اس کا دوش بھی دوسروں ہی کو دیتے ہیں ۔ عمران خان نیازی لنگر خانوں ، راشن گھروں ، یوٹیلٹی اسٹورز ، بجلی وگیس اور برآمدات پر ہزاروں ارب روپے کی زرتلافی دینے کے بجائے اپنی معاشی پالیسیوں کو درست کریں تو سب کچھ ازخود ہی ٹھیک ہوجائے گا ۔ عمران خان کی معاشی پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ملک میں تیزی سے فروغ پاتی تعمیراتی صنعت بھی انجماد کا شکار ہے ۔ تعمیراتی صنعت کو صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے اور اس سے 70 کے قریب مزید صنعتوں سے وابستہ افراد کو روزگار حاصل ہوتا ہے ۔ کراچی میں ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے دہشت پھیلارکھی ہے ۔ پہلے اس کے کرپٹ افسران غیر قانونی تعمیرات کی بھاری رشوت کے عوض نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی میں راتوں رات بلڈنگیں کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ جب یہ تعمیرات ہوجاتی ہیں اور ان میں لوگ رہائش پذیر ہوجاتے ہیں تو پھر ان ہی عمارات کو غیر قانونی قرار دے کر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی توڑنے پہنچ جاتی ہے ۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کے سیکڑوں ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں اور وہ خوف کی حالت میں ہیں ۔ عمران خان نیازی کو چاہیے کہ وہ نیب کے ادارے کو درست کریں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے جس جس ڈائریکٹر کے دور میں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں ، انہیں عبرتناک سزا دی جائے ۔ قانون بنادیا جائے کہ غیر قانونی تعمیرات کی ذمہ دار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہی ہوگی اور موجودہ تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے لیے کوئی ایمنسٹی اسکیم لائی جائے ۔ اس سے کراچی کی تعمیراتی صنعت دوبارہ سے زندہ ہوگی اور لوگوں کو روزگار ملے گا جس سے کم از کم لوگ بھوکوں تو نہیں مریں گے ۔