غزہ پر اسرائیلی یلغار بلا روک ٹوک جاری ہے ۔ جمعرات کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کا مسلسل تیسرا روز تھا جس کے نتیجے میں اب تک 36 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد بھی شامل ہیں ۔ مجموعی طورپر اب تک اسرائیل نے 20 زمینی حملے اور 50 سے زاید ڈرون حملے کیے ہیں ۔ بھاری جانی و مالی نقصانات کے علاوہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 70 سے تجاوز کرگئی ہے ۔ فلسطین اور کشمیر کی صورتحال بڑی حد تک ایک دوسرے سے مماثل ہے ۔ دونوں ہی علاقوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اسرائیلی ڈاکٹرائن پر عمل جاری ہے ۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک دونوں ہی علاقوں کے پڑوسی مسلم ممالک کا مایوس کن رویہ ہے ۔ جو کچھ ایک عرصے سے عرب ممالک اور مصر فلسطین کے ساتھ کررہے ہیں بدقسمتی سے وہی کچھ اب پاکستان کشمیر کے ساتھ کررہا ہے یعنی ایک انداز بے نیازی کا رویہ ہے کہ جو چاہے کرلو ، کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی جائے گی ۔ اہل فلسطین کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کوئی نئی چیز نہیں رہی ہے اس لیے اسے اب بین الاقوامی برادری نے معمول سمجھ کر نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے ۔ جن مسائل سے آج اہل فلسطین نبرد آزما ہیں ، ان سے اگر ایک دن کے لیے بھی یورپ اور امریکا کے باسیوں کو گزرنا پڑے تو انہیں دن میں تارے نظر آجائیں گے ۔ غزہ کی پٹی کو اسرائیل نے ایک وسیع جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے ۔ ستم کی بات یہ ہے کہ مصر نے بھی رفحہ کی گزرگاہ بند کرکے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی محاصرے میںبھرپور مدد فراہم کی ہے ۔ اسرائیل جس طرح سے غزہ میں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے اور جس طرح سے اس پر عالمی سطح پر خاموشی چھائی ہوئی ہے ، اسے عالمی برادری کی بے حسی ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ دنیا میں ترکی ہی واحد مملکت بچی ہے جو اسلامی دنیا پر ہونے والی جارحیت پرگاہے گاہے آواز بلند کرتی ہے ورنہ تو عرب ممالک بھی اس معاملے میں پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ جس طرح سے کشمیر میں ہونے والے قتل عام کے باوجود پاکستانی حکام بھارتی حکام کے ساتھ ڈانس کرتے نظر آتے ہیں ، بالکل اسی طرح عربوں نے بھی اسرائیلی قصائی نیتن یاہو کو اپنے اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ، ان کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا اور تلواریں لہرا لہرا کر رقص کیا ۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ مسلمان ایک جسدکی طرح ہیں اور کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچے ، اسے پورا جسم محسوس کرتا ہے اور اس کے تدارک کے لیے کوشش بھی کرتا ہے۔ تاہم کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ جسد خاکی بے ہوشی کا شکار ہے اور اس کے کسی بھی حصے کو کاٹ کر پھینک دیا جائے ، بقیہ جسم پر اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ۔ روہنگیا مسلمان ہوں یا شام کے مسلمان ، بھارت کے مسلمان ہوں یا فلسطینی ہو ، پوری دنیا ان کا مل کر شکار کھیل رہی ہے ۔ اگر کسی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے تو وہ مسلم ممالک کے حکمراں ہی ہیں ۔ عرب ممالک مندر بنارہے ہیں ، ہولی اور دیوالی سرکاری سطح پر منائی جارہی ہے ، یہودی معبد کھولے جارہے ہیں ، اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی باتیں کی جارہی ہیں ، پاکستان کرتار پور کی سرحد بھارتیوں کے لیے کھول رہا ہے ، بھارت کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے جواب میں عمران خان پاکستان میں ساڑھے چار سو مندروں کی تزئین و آرائش کی بات کررہے ہیں ۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل ختم کرکے وہاں کی زمین پر قبضہ کرنے سے کیا چیز روک سکتی ہے ۔فلسطین کے معاملے پر دنیا کا ردعمل خصوصا مسلم دنیا کی بے حسی سے شہہ پاکر اب بھارت نے بھی یہی طریقہ کار مقبوضہ کشمیر میں اپنا لیا ہے ۔ مقبوضہ وادی کے محاصرے کو ایک سو دن سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر پوری دنیا میں کہیں پر بھی اس پر بھارت سے کوئی باز پرس نہیں ۔ فلسطین میں اسرائیل جو کچھ بھی کررہا ہے ، اس پر پاکستان کے رویے پر اس لیے ماتم نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نیازی نے تو پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی شروع کررکھی ہے ۔ لائن آف کنٹرول پر روز بمباری ہوتی ہے ، پاکستانی محافظ اور سرحد پر بسنے والے پاکستانی شہری روز شہید ہورہے ہیں مگر کرتار پور سرحد کھولنے کی تقریب میں دونوں طرف کے سرحدی محافظ یوں گھل مل گئے اور اس طرح سے تقریب کو چار چاند لگائے گئے کہ معلوم ہوتا تھا پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی کشیدگی ہے ہی نہیں ۔ بھارت کا رویہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ فاتح ہے ، اس نے پاکستان کے ایک بڑے حصے پرجسے وہ اپنی شہ رگ کہتا ہے ، قبضہ مستحکم کرلیا ہے ۔ وہ خوشی کے عالم میں ہے مگر پاکستان کا رویہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ عمران خان نیازی اہل پاکستان کے جذبات کو سمجھیں اور ان کی ترجمانی کریں ۔ پاکستانیوں کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اسرائیلی جارحیت پر مضطرب ہیں ۔ عرب ممالک کا انتظار نہ کریں کہ وہ اقوام متحدہ اور دیگر فورم پر اس مسئلے کو اٹھائیں گے ۔ بہتر ہوگا کہ اس مسئلے پر ترکی کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنائی جائے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کی نہ صرف فوری روک تھام کی جائے بلکہ مستقبل میں بھی ایسی کسی جارحیت سے روکنے کی تدبیر کی جائے ۔ مصر کو بھی مجبور کیا جائے کہ وہ رفحہ کی گزرگاہ کو فلسطینیوں کے لیے کھولے تاکہ ان کے مصائب کم ہوسکیں ۔ ترکی، ملائیشیا اور دیگر ہم خیال مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ایک موثر بلاک بنایا جائے جو پریشر گروپ کے طور پر کام کرسکے ۔