نیب کے احتساب کی ضرورت

433

قومی احتساب کے ادارے نیب نے ادارہ ترقیات کراچی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ، نارا کنال کے منتظم ادارے سیڈا، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور حکو مت سندھ کے افسران و اہلکاران کے خلاف جاری تحقیقات بند کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ جب سے قومی احتساب بیورو کا ادارہ تشکیل پایا ہے ، اس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے ۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ نیب عملی طور پر حکومت کے ایک ایسے آلے میں ڈھل چکی ہے جس کا کام حکومت کے مخالفین کو یا ایسے افراد جن سے بھاری رقوم کی وصولی ممکن ہے ، حراست میں لے کر ہراساں کرنا اور ان کا میڈیا ٹرائل کرنا ہے۔ تاوان کی طرز پر ان زیر حراست لوگوں سے نیب کے افسران پر بھاری رشوتیں لے کر انہیں سہولتیں فراہم کرنے اور کمزور کیس بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں ۔ نیب افسران کے طرز زندگی کو دیکھ کر یہ الزامات درست ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ کئی کئی برس نیب ملزمان کے نام پر لوگوں کو حراست میں رکھتی ہے ، حتیٰ کہ حراست میں کئی افراد کے انتقال کی بھی خبریں ہیں ، ان کا بھرپور میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور پھر نیب افسران کہتے ہیں کہ شواہد نہیں ملے ، اس لیے مذکورہ کیس کی تحقیقات بند کی جاتی ہیں ۔ ان نیب افسران سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ اس عرصے میں ملزم کے نام پر گرفتار شخص کی جو کردار کشی ہوئی اور اسے اور اس کے خاندان کو سماجی طور پر جس نقصان کا سامنا کرنا پڑا ، اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا مداوا کون کرے گا ۔ حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ قانون تو بنادیا ہے کہ وہ ملزم جس نے 5 کروڑ سے زاید کی بدعنوانی کی ہے اسے جیل میں سی کلاس دی جائے گی مگر یہ قانون نہیں بنایا کہ پہلے نیب کسی بھی کیس میں شواہد جمع کرے ، اس کا کیس عدالت میں پیش کرے اور عدالت سے سزا ہونے کے بعد گرفتاری عمل میں لائی جائے ۔ اس سے قبل کسی بھی مطلوب شخص کا میڈیا ٹرائل بھی نہ کیا جائے یا پھر شواہد نہ ہونے کی بناء پر کیس بند کرنے کی صورت میں نیب افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔ نیب کے سربراہ روز نئے کیس شروع کرنے اور پرانے کیس بند کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ نیب کے سربراہ بتائیں کہ اب تک کتنے کیسوں کی تحقیقات ناکافی شواہد کی بنا پر داخل دفتر کی گئی ہیں اور ان داخل دفتر کیے جانے والے کیسوں میں کتنے افراد کو کتنے عرصے تک حراست میں رکھا گیا ۔ جب کسی شخص کے خلا ف شواہد ہی موجود نہیں تھے تو اسے حراست میں رکھنے کا کیا جواز تھا ۔ نیب کی کارکردگی کو دیکھ کر تو اب محسوس ہونے لگا ہے کہ نیب ہی کا احتساب وقت کی ضرورت ہے ۔ نیب کی جانب سے موثر احتسابی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی کرپشن کا جن بے قابو ہوچکا ہے ۔