دو خبریں چار ممالک

585

پہلی خبر یہ ہے کہ ملکِ کشمیر، جس کو ہم مقبوضہ کہتے ہیں اور اب کیونکہ اسے ایک آزاد ملک ’’بھارت‘‘ نے ’’آزاد‘‘ کرالیا ہے وہاں ’’غیر یقینی کی صورتحال بدستور برقرار ہے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں جزوی ہڑتال جاری ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس مسلسل 96 ویں روز سے معطل ہے، وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مظاہرے روکنے کے لیے سخت پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔ برفباری سے مختلف علاقوں میں 4 فوجیوں سمیت 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘‘۔ یہ وہ ملکِ کشمیر ہے جس کی سرحدیں ہمارے ’پاکستان‘ کے اس کشمیر سے ملتی ہیں جس کو ہم ’آزاد‘ کہتے ہیں لیکن دنیا 72 سال سے اسے متنازع کہتی چلی آئی ہے۔ ویسے تو وہ کشمیر جس کو ہم 72 برسوں سے ’قبضہ کیا ہوا‘ کشمیر کہتے رہے تھے اور جس کو اپنا اٹوٹ انگ ہی نہیں پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے رہے تھے، دنیا کی نظروں میں ’متنازع‘ ہی تصور کیا جاتا تھا لیکن نجانے کالی ماتا کا وہ کون سا جادو دنیا سمیت خود پاکستان کی آنکھیں بینائی سے محروم کر گیا کہ نہ تو دنیا کو اب ’وہ‘ کشمیر متنازع علاقہ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں کو وہ کشمیر ایک ایسا علاقہ نظر آرہا ہے جس کی حیثیت تنازعے کا شکار ہو۔ حد تو یہ ہے پاکستان میں رہنے والے، خواہ ان کا تعلق حکومتی ایوانوں سے ہو، عسکری قوتوں سے ہو، مذہبی جماعتوں سے ہو یا سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں یا عوام سے ہو، پاکستان سے ہزاروں میل کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم نظر آجایا کرتے تھے، ان کی آنکھوں میں بھی کچھ ایسا اندھیرا چھایا ہے کہ وہ کشمیر جو ان کی سرحد کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہاں ہونے والے مسلمانوں کی نہ تو ان کو چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی بہتا خون اور لٹتی عزت و عصمت نظر آرہی ہے۔ یہ سب اسی کالی ماتا کے کالے جادو کا اثر ہے یا امریکی سامری جادو گر ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈالروں کی چمک ہے جو اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر موجود کشمیر اور وہاں پر ٹوٹنے والی قیامت کو دیکھنے سے روکے ہوئے ہے۔ یہ تو ہے اس ملکِ کشمیر اور پاکستان کی سرحدوں کا احوال جس کو بھارت نے آزاد کرنے کے بعد اپنے ہی قبضے میں رکھ چھوڑا ہے۔ اس ملکِ کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں لگائی گئی پابندیوں میں جزوی کمی کے باوجود لوگ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور اسے مرکز کے تحت 2 انتظامی علاقوں میں تقسیم کرنے کے (اپنے ہی محسن) غیر قانونی بھارتی اقدام کے خلاف ہڑتال اورسول نافرمانی کی تحریک کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دکانیں اور کاروباری مراکز صرف صبح اور شام کے وقت کچھ گھنٹوں کے لیے کھولے جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے اور دفاتر ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے، بانہال سے بارہمولہ تک ریل سروس بھی5 اگست سے بند ہے۔
اب پاکستان اور ملکِ بھارت کی اس سرحد کا جائزہ لیتے ہیں جہاں کے حالات بالکل اس کے بر عکس ہیں جو بھارتی کشمیر اور پاکستان کی سرحد پر ہیں۔ خبر ہی نہیں بالکل روزِ روشن کی طرح ہر خاص و عام کے علم میں یہ بات نہایت اچھی طرح واضح ہے کہ بھارتی ’آزاد‘ کشمیر اور پاکستانی سرحدوں کی پْر آشوب صورت حال کے برعکس یہاں دونوں جانب جشن کا سماں ہے۔ آتش بازیاں ہو رہی ہیں، فضائیں رنگ برسا رہی ہیں، شادیانے بجائے جارہے ہیں، رقص و سرود کی محافل سجی ہوئی ہیں اور لوگ مبارکبادیوں اور خوش آمدید کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ یہاں کے سرحدی حالات پر نظر دوڑائی جائے اور کشمیر کی خوں ریزی پر غور کیا جائے تو یہ لگ ہی نہیں سکتا کشمیر والا پاکستان اور کرتارپور والا پاکستان اور اس کے برعکس کشمیر والا بھارت اور کرتارپور والا بھارت ایک ہی ملک ہے۔
اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں10 ہزار سے زائد سکھ یاتری شرکت کریں گے، راہداری کی تعمیر کے بعد روزانہ5 ہزار سکھ یاتری گورودوارہ دربار صاحب کی یاترا اور وہاں اپنی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے آسکیں گے، اس منصوبے کے لیے فنڈز مکمل طور پر پاکستان نے فراہم کیے ہیں اور یہ سکھ برادری کے لیے ایک تحفہ ہے۔ اس راہداری کا مقصد سکھ برادری کو پاک بھارت سرحد سے محض4.7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گردوارہ دربار صاحب کی یاترا میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ یاتریوں کی سہولت کے لیے حکومت پاکستان نے خصوصی ٹرینیں بھی چلائی ہیں، اس موقع پر سیکورٹی کے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ کرتارپور گوردوارہ میں سکھ یاتریوں کی رہائش کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور کمپلیس کے اندر لنگر خانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے‘‘۔ بظاہر یہ قدم مستحسن ہی نظر آتا ہے لیکن جس موقعے اور جن حالات میں یہ قدم اٹھایا جارہا ہے وہ نہایت مکروہ اور قابل نفرت وقت ہے۔ ایک جانب وہی ملک اور اس ملک کے وہی شیاطین جو ماضی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے اور بھارت کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے اس وقت ہولی کھیلنے میں مصروف ہے، ہم جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک دکھ کی بات یہ بھی ہے اس بات کو بار بار دہرایا جارہا ہے کہ بھارت سے صرف سکھ یاتری ہی پاکستان میں داخل ہو کر اپنی عبادت کرنے کے بعد شام تک لوٹ جایا کریں گے اور اس کو ’’بین المذاہب‘‘ راہداری کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ یہ لفظ ’’بین المذاہب‘‘ خود اس بات کی چغلی کھا رہا ہے کہ یہ راہداری صرف سکھوں کے لیے نہیں کھولی جارہی بلکہ ہندوستان میں رہنے والے ہر مذہب کے لوگ اس راہداری کا فائدہ اٹھا سکتے اور پاکستان آ اور جا سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ جو پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ’’واجب القتل‘‘ ہیں (مذہباً اور قانوناً) ان کے آنے جانے پر بھی کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ یہاں دو سوال بہت اہمیت کے حامل ہیں، ایک یہ کہ سکھ یاتریوں کے یہاں آنے جانے والوں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنا تو بے شک ایک مذہبی رواداری قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ہندوستان کے دیگر مذاہب کے افراد کو یہ اجازت کس رواداری میں شمار کی جائے گی؟۔ پھر یہ کہ اگر ہندوستان کے سارے مذاہب کو اس بات کی اجازت دی جارہی ہے کہ وہ یہ ساری سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں تو کیا ہندوستان کے سارے مسلمان بھی اسی طرح پاکستان آ اور جا سکتے ہیں یا وہ سارے کے سارے دشمنانِ پاکستان کی فہرست میں شامل ہیں؟۔
ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے پاکستان اور دو قسم کے بھارت پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پاکستان اور ہندوستان ہے جو ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اور سرحدوں پر ایک دوسرے کے لہو سے ہولی کھینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک دوسرے پر گولیوں کی برسات کرتے ہیں، لاشیں گراتے ہیں، آبادیوں پر بمباری کرتے ہیں، گردنیں کاٹتے ہیں اور مورچوں کو مسمار کرتے ہیں اور دوسری جانب وہ پاکستان اور بھارت ہیں جہاں جشن منایا جاتا ہے، رقص و سرود کی محافل سجائی جاتی ہیں، پھلجھڑیاں اڑائی جاتی ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، فضاؤں میں دوستی کے ترانے بلند ہوتے ہیں گلوں سے گلے اور سینوں سے سینے ملتے ہیں۔ پاکستان ہو یا بھارت، دونوں کو اپنی اپنی اس دوہرے چہرے والی پالیسی پر غور کرنا ہوگا۔ پاکستان کی حکومت اور مقتدر حلقوں کو اس بات پر بھی سوچ بچار کرنی ہوگی کہ کیا ان کی ایسی دوہری پالیسیاں ان کے اپنے اپنے ممالک کے لیے اچھے نتائج نکالنے میں کامیاب ہونگی یا یہ دونوں ممالک عوامی سطح پر اور بھی زیادہ انتشار کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔
بھارت ہو یا پاکستان، دونوں جانب کے اہل اقتدار و اختیار کو یہ بات خوب اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ اگر مسلمان اور غیر مسلم یا آسان اور سلیس اردو میں ہندو اور مسلم ایک ساتھ مل کر امن و سکون اور محبت اور یگانگت کے ساتھ رہ سکتے تو پھر ہندوستان کی تقسیم ہوتی ہی کیوں اور دو قومی نظریے کا تصور ہی کیوں ابھرتا۔ اگر دو مذاہب اور تہذیبوں کو اپنے اپنے لیے الگ الگ خطہ زمین کی ضرورت ماضی میں تھی تو یاد رکھیں یہ ضرورت ابد تک برقرار رہی گی اور ایک دوسرے سے قریب آنے اور ساتھ مل کر رہنے کی ہر کوشش خون خرابے کے علاوہ کوئی اور کسی بھی قسم کا کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے گی۔