کیا سقوط کشمیر کو بھلا دیا گیا؟

476

یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کا سانحہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ قوم کو نواز شریف کی بیماری اور دساور کو روانگی ، آصف زرداری کی رہائی اور مولانا فضل الرحمن کے دھرنے جیسے غیر متعلقہ اورغیر اہم مسائل میں اس طرح مشغول کردیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست میں ضم کرنے اور پاکستان کے خلاف بھارتی آبی جارحیت جیسے اہم ترین معاملات کہیں پس منظر میں گم ہوگئے ہیں ۔ بھلا ہو جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق کا کہ انہوں نے سقوط کشمیر جیسے اہم ترین مسئلے کو زندہ رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔ انہوں نے درست وقت پر درست موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی سرکار کو جگانے کے لیے22 دسمبرکو اسلام آباد میں عوامی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ پاکستانی قیادت کا تو یہ حال ہے کہ وہ کرتار پور راہداری کے کھولنے ہی کو بہت بڑی کامیابی تصور کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران نیازی نے کرتارپور راہداری کھولنے کو شروعات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے ایسے تعلقات ہوں گے جو ہونا چاہییں تھے ۔عمران نیازی نے یہ بیان دے کر ان خبروں کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بحالی کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی جاری ہے ۔ بیک چینل ڈپلومیسی اس وقت کی جاتی ہے جب معاملات حل ہوچکے ہوں۔ تو کیا عمران نیازی مقبوضہ کشمیر کوبھارت کی جانب سے ہڑپ کرنے اور اس کی آبی جارحیت کو درست تسلیم کرچکے ہیں ۔ پاکستانی قوم کے جذبات کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کا افتتاح ایسے موقع پر کیا جب بھارت پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرچکا ہے اور اس نے کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں ۔ کشمیر میں 5 اگست سے تاحال کرفیو نافذ ہے اور اسے ایک جیل کی شکل دے دی گئی ہے ۔ کشمیری نوجوانوںکو ان کے گھروں سے اغوا کرکے بھارتی فوج بدترین تشدد کا نشانہ بنارہی ہے اور ان کی عورتوں کی منظم آبرو ریزی کی جارہی ہے ۔ کشمیر کے علاوہ بھارت کے دیگر علاقوں میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں ، ان کی املاک کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور ہجوم کے ذریعے قتل عام جاری ہے ۔بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت شروع کررکھی ہے اور بھارت سے آنے والے دریاؤں کا رخ موڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان خشک سالی کا شکار ہے ۔ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور پھر اس کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ 9 نومبر کو اس وقت سنایا گیا جب عمران نیازی خوشی و سرمستی کے عالم میں کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کررہے تھے ۔ اندیشوں کے عین مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے تمام تر تاریخی حقائق کے برعکس بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے ۔ یہ فیصلہ بعد میں سنایا جانا تھا مگربھارتی وزیر اعظم مودی نے اس کے لیے 9 نومبر کو خاص طور سے چنا تاکہ کرتار پور راہداری کے پاکستانی فیصلے کا بھارتی انداز میں مسکت جواب دیا جاسکے ۔ اس سے مودی کی ذہنیت کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ ایسے پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے کیسے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی امید کررکھی ہے ، یہ وہی بہتر سمجھ سکتے ہوں گے ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی بازیابی کے لیے کوئی موثر منصوبہ بندی کرتا اور بھارت کو ترنت جواب دیتا ، اس کے بجائے عمران خان اور ان کے سلیکٹروں نے بھارت کو کوسنے دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے ۔ عملی طور پر بھارت کو واک اوور دے دیا گیا ۔ عمران خان کی پالیسیاںاور اقدامات دیکھ کر اب تو شبہ ہونے لگا ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے سے قبل کہیں پاکستانی قیادت کو اعتماد میں تو نہیں لیا تھا اور پاکستانی قیادت کی مرضی سے ہی مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست میں ضم کرنے کا عمل رو بہ کار لایا گیا ۔ پاکستانی قیادت نہ تو 5 اگست کو چونکی اور نہ اس نے 31 اکتوبر کے اقدام کو روکنے کے لیے کچھ کیا ، اس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے ۔ جس طرح سے کشمیر کو بھارت کے حوالے کیا گیا ہے ، اس سے غداری کی بو آرہی ہے ۔ عمران خان نے ایک مرتبہ بھی کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے نکالنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اور اب وہ 9 نومبر کو کرتار پور میں کھڑے ہوکر کشمیر اور بابری مسجد کو فراموش کرکے فرمارہے تھے کہ یہ تو شروعات ہیں ، بھارت کے ساتھ جلد ایسے تعلقات ہوں گے جیسا کہ ہونے چاہییں تھے ۔ بھارت نے تو بابری مسجد پر اپنے فیصلے کا اعلان کرکے پیغام دے دیا ہے کہ وہ کس طرح کے تعلقات چاہتا ہے۔ کیا عمران آزاد کشمیر کو بھی بھارت کے حوالے کرنے کی تیاریوں میں ہیں اور کیا وہ کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ میں بھارت کی ریشہ دوانیاں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو درست تسلیم کرچکے ہیں ۔ 9 نومبر پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہم اس لیے بھی ہے کہ اس روز مصور پاکستان علامہ اقبال کا یوم پیدائش تھا ۔ نواز شریف نے علامہ اقبال کو پاکستانی قوم کے نوجوانوں کے ذہن سے فراموش کرنے کے لیے اس دن کی چھٹی ہی منسوخ کردی ۔ اس کے بعد کی حکومتوں نے بھی اس پر صاد کیا ۔ شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں یوم مئی جیسی چھٹی تو بحال کردی گئی مگر علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ایام کی چھٹیاں کوئی بحال کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اب خاص طور سے کرتار پور راہداری کو کھولنے کے لیے 9 نومبر کا دن چنا گیا تاکہ اس روز دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کو بتایا جاسکے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور ان کو لانے والوں نے اکھنڈ بھارت کا نظریہ تسلیم کرلیا ہے ۔ وہ کشمیر کو بھارت کے تسلط میں دینے کے بعد انتہائی اطمینان سے فرمارہے ہیں کہ یہ تو شروعات ہیں اور بھارت سے جلد ایسے تعلقات ہوں گے جو مطلوب ہیں ۔ صورتحال کو عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کی روشنی میں مزید سمجھا جاسکتا ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے کہ دیوار برلن گرسکتی ہے تو کنٹرول لائن کی عارضی حد بندی بھی کھل سکتی ہے ۔ ہم تسلسل سے اس امر کی نشاندہی کررہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر کوئی اعتراض ہے ہی نہیں ۔ وہ معاملات کو مودی کی من پسند نہج پر لانے پر راضی ہیں اور ان کا پورا زور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے بھی یہی فرمایا ہے کہ عمران خان نے کرتار پور راہداری کھول دی ہے تو اب مودی بھی جامع مسجد سری نگر کو کھول دیں ۔ کیا مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں پر جامع مسجد کو تالا لگا دیا گیا ہے جس کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کہنا پڑا ہے ۔ بابری مسجد کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس سے قائد اعظم کا دو قومی نظریہ پھر درست ثابت ہوگیا ہے ۔ پاک فوج کے ترجمان نے مزید کہا ہے کہ یقینی طور پر بھارت میں موجود اقلیتوں کو اب بھارت کا حصہ بننے پر افسوس ہورہا ہوگا ۔ پاک فوج کے ترجمان کا بیان درست ہے مگر بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کے لیے اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں ہے کیوںکہ ان کے پاس دوسرا اور آخری آپشن پاکستان ہی تھا اور پاکستانی قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اب بھارت کا ہمسایہ ملک نہیں رہا ہے بلکہ وہ بھارت کی طفیلی ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اس کی وجہ سے بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی بے بسی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس سے قبل بھارت میں بسنے والی اقلیتوں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کو یہ ڈھارس رہتی تھی کہ اگر بھارتی ہندوؤں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی تو پاکستان ان کی مدد کے لیے موجود ہے ۔ یہی خوف بھارتی قیادت کو بھی رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں پر یوں بلا روک ٹوک پرتشدد کارروائیاں کرنے سے گریز کرتی تھی مگر اب پاکستانی قیادت نے پاکستان کو عملی طور پر بھارت کے تسلط میں دے دیا ہے ۔ سینیٹر سراج الحق کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کی ترجمانی کی ہے اور مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی سرکار کی جانب سے مٹی پاؤ پالیسی کو ناکام بنادیا ہے۔