مولانا سستے داموں چھوٹنے والے نہیں

674

دسمبر کا نیلا آسمان تو ابھی دور ہے۔ لال پیلا نومبر سامنے ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے رنگوں سے مغلوب۔ اس پر بات کرنے سے پہلے محسن نقوی کے دو شعر:
یہ ہجوم شہر ستمگراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
میری حسرتوں کو سخن سنا میری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جلوس فصل بہار ہے تہی دست یار سجا اسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
مولانا شہر ستم گراں میں حسرتوں کو سخن اور خواہشوں سے خطاب کرنے وارد ہوئے ہیں۔ اشک شرر بنتے ہیں اور زخم گلاب یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تادم تحریر ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مطالبات کے حوالے سے ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ رہبر کمیٹی وزیراعظم کے استعفے اور نئے مطالبات پر ڈٹی ہوئی ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم انہیں مسترد کررہی ہے۔ رہے وزیراعظم عمران خان، ان کی مثال اس توتے کی سی ہے جس کا زور بیان چند رٹے رٹائے جملوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ ’’یہ این آراو چا ہتے ہیں۔ میں انہیں کسی صورت این آر او نہیں دوںگا۔ این آراو دینا غداری ہوگا‘‘۔ مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے پر حکومت بار بار جس بات کی تکرارکررہی ہے، اس پر ایک لطیفہ سن لیجیے:
گائوں میں شادی تھی۔ نائی نے چاول پکانے شروع کیے تو ان میں پانی زیادہ ڈل گیا۔ اس خرابی سے بے خبر چودھری صاحب نائی کے پاس آئے اور بولے ’’دیکھ بھئی ساڈی عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کھانا ایسا پکانا کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ جائیں‘‘۔ نائی بولا ’’چودھری صاب فکر نہ کرو پر ایک گل میری ماننی پڑے گی۔ بارات آئی لیکن کسی نے اگر بارات میں پٹخائے چلائے تو پھر کھانے کی میری ذمے داری نہیں‘‘۔ چودھری صاحب بولے ’’اس کی گارنٹی میں لیتا ہوں پٹاخے نہیں چلنے دوں گا‘‘۔ جیسے ہی بارات گائوں میں داخل ہوئی چودھری صاحب نے اپنے بندے دوڑادیے لیکن اس سے پہلے کہ بندے بارات تک پہنچتے پٹاخے چل چکے تھے۔ نائی نے پٹاخوں کی آواز سنی تو صافہ کندھے پہ ڈالا اور بو لا ’’پورا کر لیانا پٹاخوں کا شوق۔ ہن تسی جانو، جنج جانے، میں چلیا‘‘۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حکومت کا ہے۔ اس کے نزدیک اہم ملکی معاملات میں زیادہ پانی ڈل جانے کی وجہ مولانا کا مارچ ہے۔ مولانا کے آزادی مارچ کے پٹاخوں کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے، اس بات کی تکرار سب سے زیادہ ہے۔ کوئی پوچھے حضور ایک عملی قدم گزارش کریں گے جو آپ نے نریندر مودی کے کشمیر کو ضم کرنے کے جواب میں اٹھایا ہو۔ سوائے تقاریر، بیانات اور بڑھکوں کے۔ لایعنی بیانات کی ایک قطار ہے سول اور فوجی حکمران جس میں ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہیں۔ ’’کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر سمجھوتا نہیں ہوگا‘‘۔ کور کمانڈرز۔ ’’اس وقت اگر کوئی پاکستانی مقبوضہ کشمیر لڑنے گیا تو یہ کشمیریوں سے دشمنی ہوگی‘‘۔ عمران خان۔ ’’کشمیریوں پر ظلم ہمارے صبر کی آزمائش ہے‘‘۔ آرمی چیف جنرل باجوہ۔ بیانات کے ان بلیک ہولز کی تعداد زیادہ ہے یا انڈین فوج کے مظالم کے ہاتھوں شہید اور زخمی ہونے والے کشمیریوں کی؟۔ ہماری بہادر فوجی قیادت کشمیر میں بھارت کے خلاف کون سا جہاد شروع کرنے جارہی تھی مولانا کے دھرنے کی وجہ سے جسے ملتوی کرنا پڑا۔ کشمیر میں کرفیو کو تین مہینے سے زیادہ ہورہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے بارے میں نیا نقشہ جاری کردیا۔ بدلے میں ہماری قیادت نہایت مشفقانہ انداز میں بھارت کی مذمت کررہی ہے۔ زبانیں چلانے کے سوا ہماری سول اور فوجی قیادت نے بھارتی افواج کو کہیں اپنی موجودگی اور طاقت کا احسا س دلایا؟
ستم کو وہ کرم ثابت کریں گے
زبانیں ان کو بخشی ہیں خدانے
معیشت بھی چاولوں کی وہ دیگ ہے جسے مولانا کے دھرنے نے زیادہ پانی ڈال کر خراب کردیا ہے۔ ملک میں تاجر ہڑتال پر ہیں، ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں، کراچی میں اسا تذہ، لاہور میں نابینا ملازمین سڑکوں پر ہیں، ملک بھر کے کسان سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ مہنگائی سے پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ معاشی فیصلوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر آئی ایم ایف بیٹھی ہوئی ہے۔ بجٹ کا فیصلہ بھی آئی ایم ایف کررہی ہے۔ بجلی کی قیمت کا تعین بھی آئی ایم ایف کررہی ہے۔ عمران خان کی حکومت ہے کہاں۔ پریس کانفرنسیں کرنے، فیتے کاٹنے، الٹے سیدھے پروگرام اعلان کرنے کے سوا اس حکومت کا کہیں وجود ہے تو بتا دیجیے۔ کیا یہ سب کچھ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا نتیجہ ہے؟
مولانا کے مطالبات کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت وہ ہے جس میں وہ حکومت سے مخاطب ہیں اور دوسری جہت وہ ہے جس میں وہ حکومت کے سرپرستوں سے مخاطب ہیں۔ ان کے مطالبات کی ایک پرت وہ ہے جس میں وہ عمران خان سے استعفا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور دوسری پرت وہ ہے جس میں وہ نئے عمرانی معاہدے، فوج اور اداروں کے کردار کے تعین، الیکشن میں فوج کی عدم مداخلت اور آئین کی بالادستی کا تقاضا کررہے ہیں۔ آزادی مارچ کے آغاز میں عمران خان نے تضحیک اور ان کی مذاکراتی ٹیم نے سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ مولانا کی جانب سے اس سے بھی زیادہ سخت پیغام آیا تب حکومت کو احساس ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ زمین پائوں کے نیچے سے سرکنا شروع ہوجائے۔ یہ حکومت کی پسپائی ہے کہ اسے اپنی مذاکراتی ٹیم کے بجائے چودھری برادران کو آگے لانا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے خاندان اور چودھری شجاعت کے خاندان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ پرویز مشرف کے دور سے فوج اور چودھری بردران کے تعلقات بھی ہیں۔ ممکن ہے وہ عمران خان کی حکومت کو بائی پاس کرکے فوج اور مولانا کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ عمران خان کی حکومت سے وہ بھی کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ان ملاقاتوں کے فوری نتائج کے بارے میں کہنا آسان نہیں۔ یہ قدرے طویل راستہ ہے۔ جہاں تک حکو مت کا تعلق ہے اس کا سارا انحصار فوج کی حمایت پر ہے۔ مولانا کے دھرنے کو بخیر وخوبی انجام تک پہنچانا ان اداروں کی ذمے داری ہے جو بار بار وضاحتیں کررہے ہیں۔کیونکہ عمران خان کی حکومت کے رعونت، تکبر، دھونس اور طفلانہ حرکتوں کی وجہ سے اگر کوئی فساد ہوتا ہے تو اس کے پیچھے فوج کی پشت پناہی تلاش کی جائے گی۔
اسلام آباد کی شدید بارشوں کا اہل دھرنا نے جس عزم اور استقامت سے مقابلہ کیا ہے اور مولانا نے 12ربیع الاول کے جس پروگرام کا اعلان کیا ہے وہ اس بات کا اظہار ہے کہ مولانا کو جلدی ہے اور نہ ہی کو ئی گھبراہٹ۔ مولانا فیس سیونگ اقدامات لے کر ٹلنے والے نہیں ہیں۔ وہ دھرنے کی بھاری قیمت وصول کیے بغیر نہیں جائیں گے۔ یہ قیمت کون ادا کرے گا۔ عمران خان کی حکومت کے پاس توکچھ نہیں، سوائے دہمکیاں دینے اور بونگیاں مارنے کے۔ یہ لین دین اور معاملات وہ کریں گے جو معاملات طے کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ البتہ ان معاملات اور لین دین کو بھگتنا عمران خان کی حکومت کو پڑے گا۔ قیمت انہیں ہی چکانا پڑے گی۔ نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرے گا۔ اس میں کیا شک اس پورے معاملے میں کمزور ترین حالت میں اگر کوئی ہے تو وہ عمران خان کی حکومت ہے۔ اس لین دین میں حکومت کا جانا ٹھیر بھی گیا تو وہ اس حد تک پوپلی ضرور ہوجائے گی کہ ہلکی سی ٹھیس سے پھٹ پڑے۔