وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم کے خاص رکن اور ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے ایک مرتبہ پھر انکشاف کیا ہے کہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کا پیسہ قانونی طریقے سے باہر گیا ہے اور اسے غیر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا اس لیے بیرون ملک بینکوں میں رکھا گیا پیسہ واپس پاکستان نہیں لایا جاسکتا۔شبر زیدی نے یہ بھی کہا ہے کہ ملائیشیااور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک نے بیرون ملک پاکستانیوں کی خریدی گئی جائیداد کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے، اور جن ممالک نے اس طرح کی معلومات فراہم کی ہیں وہ معلومات بھی تیکنیکی طور پر استعمال کے قابل نہیں۔ بیرون ملک بینکوں میں رکھے گئے پیسوں کی ملک میں واپسی پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ تھا۔ عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ بیرون ملک بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر جمع ہیں۔ یہ ڈالر پاکستان میں بھتے اور رشوت کے ذریعے کمائے گئے، اس لیے پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آتے ہی اس کالے دھن کو وطن واپس لائے گی جس سے نہ صرف ملک کے سارے قرضے ادا ہوجائیں گے بلکہ ملک میں خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں، قوم ان سے یہی سوال کررہی ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم میں جو بھی وعدے کیے تھے وہ کب پورے ہوں گے۔ عمران خان ہر روز اپنے ایک وعدے سے پھر جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیر آزاد کروائیں گے مگر انہوں نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے میں عملی مدد فراہم کی، اسی طرح انہوں نے کہا تھا کہ وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کریں گے مگر وہ یہ کام بھی کرگزرے۔ 50 لاکھ گھر، کروڑ نوکریاں، قرض کی بھیک مانگنے کے بجائے خودکشی کرلوں گا، تعلیم و صحت کی سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی، جمعہ کی چھٹی کی بحالی، ویلنٹائن ڈے پر پابندی، منی چینجروں پر پابندی، پولیس اصلاحات وغیرہ وغیرہ جیسی بہت ساری باتیں تھیں جن کا اعلان عمران خان نے خود کیا تھا مگر سب پر انہوں نے کمال خود اعتمادی سے یوٹرن لے لیا۔ شبر زیدی نے بیرون ملک رکھی گئی پاکستانیوں کی رقوم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس پر عمران خان کو نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر انہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہر معاملے میں جھوٹ بولا تھا اور ان کی گزشتہ کسی بھی بات کو درست نہ سمجھا جائے اور اسی طرح ان کی آئندہ کی کسی بات پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔ شبر زیدی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو مزید بتایا کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے اور اسے گرے لسٹ سے نکال کر گرین لسٹ یا وہائٹ لسٹ کے بجائے بلیک لسٹ بھی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات میں میرٹ کے بجائے سیاسی عنصر زیادہ ہے۔ اس امر کی نشاندہی ہم کئی مرتبہ کرچکے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا مقصد پاکستا ن پر دباؤ ڈالنا ہے اور یہ عمران خان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ پاکستان ابھی تک اس لٹکتی تلوار سے چھٹکارا نہیں حاصل کرپایا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو برسراقتدار آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے مگر ان کی ناکامیوں کی فہرست روز مزید طویل ہوجاتی ہے۔ عمران خان کے کریڈٹ میں ریاست مدینہ بنانے کے دعوے اور اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان حقیقت پسندی سے کام لیں اور زمینی حقائق پر مبنی پالیسیاں تشکیل دیں تاکہ پاکستان بحران در بحران سے باہر نکل سکے۔ وہ اور ان کی پوری ٹیم ہی خلا میں بستی ہے اور خلائی منصوبے پیش کرتی رہتی ہے بلکہ عمران خان کی معاشی ٹیم تو روز ہی تبدیل ہوتی ہے۔ اسد عمر کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو لایا گیا گیا تھا، وہ بھی اب کئی ماہ سے زیر زمین ہیں۔