کے ایم ڈی سی کی تباہی

256

کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام ہے اوراس کا وہی حال ہے جو بلدیہ کراچی کے زیر انتظام پورے کراچی کا ہے ۔ چار چار ماہ سے اس کے تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاتی جس کے لیے اس کے ملازمین نے کئی مرتبہ احتجاج کیا ۔ احتجاج کے بعد چند ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کردی جاتی ہے اور پھر وہی لیل و نہار ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر گزشتہ چار ماہ سے اس کے ملازمین نے کالج میں تالا بندی کردی ہے جس کے نتیجے میں کالج میں تدریسی عمل معطل ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چار ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس کالج کے سرپرست اور بلدیہ کراچی کے منتظم اعلیٰ میئر وسیم اختر کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی اور یوں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کا تعلیمی سال ضائع ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ۔ یوں بھی کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی نااہل انتظامیہ کی وجہ سے مذکورہ کالج کے طلبہ دیگر میڈیکل کالجوں کے طلبہ سے تقریبا دس ماہ پیچھے ہیں ۔ بات صرف کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بلدیہ کراچی کے زیر انتظام تمام ہی اداروں کا حال یکساں بے حال ہے ۔ عباسی شہید اسپتال میں صفائی ستھرائی کی صورتحال دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بلدیہ کراچی کس طرح سے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے ۔ صفائی ستھرائی کے لیے عملہ مامور ہے مگراپنا کام کرنے کے بجائے کہیں غائب ہوتا ہے۔ سٹی وارڈن کا ایک پورا محکمہ موجود ہے جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹارگٹ کلرز کو باقاعدہ نوکریاں دی گئیں اور اب یہ سارے کے سارے غائب ہیں اور گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔ عباسی شہید اسپتال سمیت بلدیہ کے تمام ہی اسپتالوں میں کروڑوں روپے کی ٹیسٹ اور ایکسرے کرنے کی مشینیں خراب کردی گئی ہیں اور عوام کو کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔ عباسی شہید اسپتال میں ہاؤس افسران کو بھرتی کرلیا جاتا ہے مگر انہیں ان کا متعین وظیفہ نہیں دیا جاتا ۔ بار بار چکر لگانے پر انہیں کچھ دے دیا جاتا ہے اور بقیہ بلدیہ اور عباسی شہید اسپتال کے انتظامی افسران مل کر ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی بنانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں اور اس ضمن میں بلدیہ کے ایوان میں قراردادیں بھی منظٖور کی گئی ہیں مگر اب توکالج کو چلانے ہی کے لالے پڑگئے ہیں ، اسے یونیورسٹی بنانے کی بات تو دیوانے کی بڑ ہی کہلائے گی ۔ کراچی کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا اور سیوریج کے پانی میں ڈبودیا گیا ہے ۔ اس کے بعد جو تعلیمی ادارے بچے، ان کے فنڈز روک کر انہیں طبعی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ کھڑی گاڑیوںکی مرمت اور ڈیزل کے لیے سالانہ اربوں روپے جاری کردیے جاتے ہیں ، جس ماہی خانے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، اس کے لیے بجٹ موجود ہے ، سٹی وارڈن کہیں شہر میں نظر نہیں آتے ، ان کی تنخواہیں بروقت ادا کی جارہی ہیں یعنی کرپشن کے لیے تو اربوں روپے موجود ہیں مگر کراچی کے بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈ موجود نہیں ہیں ۔ یہ بلدیہ کراچی اور میئر کراچی وسیم اختر کی نااہلی ہی ہے کہ اب کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو بلدیہ کراچی کے انتظام سے نکال کر حکومت سندھ کی تحویل میں دیے جانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی اور بدانتظامی کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا ہے ۔ کراچی کے سربراہ میئر کراچی وسیم اختر کی نااہلی ، بد انتظامی اور کرپشن کے خلاف کون میدان میں اترے گا ۔