اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کا معاملہ پارلیمنٹ میں طے کریں۔ اگرچہ ان کے یہ ریمارکس اکرم درانی اور ان کے بیٹے کے کیس کی سماعت کے دوران تبصرے کے طور پر سامنے آئے لیکن ان کا یہ مشورہ صائب ہے کہ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رہنا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دھرنے کے ذریعے مطالبات منوانے کی روایت گزشتہ اسمبلی کے خلاف عمران خان نے مستحکم کی اور طویل دھرنا دے کر نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے ان کو سمجھایا تھا کہ پارلیمنٹ کے معاملات سڑکوں پر نہیں حل کیے جاتے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دونوں فریقوں سے رابطہ کرکے معاملات طے کرنے اور کشیدگی اور تشدد سے بچنے کی ترغیب دی تھی۔ اب عمران خان حکومت میں ہیں اور ان کے خلاف جے یو آئی دھرنا دے رہی ہے۔ اگر عدالت کے مشورے پر غور کیا جائے تو یہ محض جے یو آئی اور عمران نیازی حکومت کا معاملہ نہیں ہے۔ اس مشورے میں پاکستان کا پورا نظام آ جاتا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں آ جاتی ہیں۔الیکشن کمیشن عدالتیں اور خصوصاً عوام آجاتے ہیں۔ اور جب پارلیمنٹ کے تقدس کی بات آتی ہے تو ووٹ کو عزت دینے اور غیر جانبدار ادارے بھی آجاتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ معاملات پارلیمنٹ میں طے کر لیے جائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاملہ صرف آزادی مارچ کا ہے اور دیگر تمام معاملات پارلیمنٹ میں طے ہو رہے ہیں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ کون سا معاملہ پارلیمنٹ میں طے ہو رہا ہے۔ ہر معاملے کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے فیصلہ تو کہیں اور ہو رہا ہے یہاں تک کہ میاں نواز شریف کی اچانک رہائی اور طبیعت کی خرابی کے حوالے سے بھی شبہات موجود ہیں۔ اور مریم نواز کی عدالت سے ضمانت اور مسلم لیگ ن کا فضل الرحمن کے ساتھ کھچائو بھی زیر بحث ہے۔ مریم نواز کے وکیل کو یہ کہنا پڑا کہ ضمانت میرٹ پر ہوئی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں۔ اس سے ملتی جلتی بات جے یو آئی کے رہنما حمد اللہ نے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراڑ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تو حافظ حمد اللہ بتائیں گے کہ دراڑ کون ڈال رہا ہے لیکن کوئی تو ہوگا جو پارلیمنٹ سے باہر ہے اور فیصلے بدلوا رہا ہے یا اثر انداز ہو رہا ہے گویا فیصلے تو پارلیمنٹ میں نہیں ہو رہے۔ لیکن اگر حکمران اور اپوزیشن خود معاملات پارلیمنٹ میں فیصل کرنے پر تیار نہ ہوں تو کیا ہوگا۔ اس کا حل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن حقیقتاً آزاد ہو جائے اور آئین کے مطابق فیصلے کرے… لیکن الیکشن کمیشن کی کار گزاری کاغذات نامزدگی سے انتخابی نتائج تک مشتبہ رہی ہے۔ یقینا یہ معاملہ پارلیمنٹ ہی میں طے ہونا چاہیے لیکن ارکان پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے معاملے میں اب تک متفق نہیں ہو پائے ہیں۔ اس مشکل کام کی ریت تو ارکان پارلیمنٹ ہی کو ڈالنی ہوگی کہ معاملات پارلیمنٹ میں طے کیے جائیں لیکن عوام یعنی ووٹرز پر بھی بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ انہیں بھی پارلیمنٹ کے تقدس کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو انہیں پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا۔ جس قسم کے لوگ عوام کی عدم دلچسپی اور کسی غیر جانبدار ادارے کی جانبداری کے سبب کھوکھلے، سلیکٹ ایبلز پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں، پھر یہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر اس ادارے کے تقدس کو پامال کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں موجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس معاملے میں سنجیدہ ہوتے تو اب تک اس ملک میں متناسب نمائندگی کا قانون نافذ ہو چکا ہوتا۔ عوام کے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں ہوتے لیکن انہوں نے کئی کئی مرتبہ حکومت ملنے کے باوجود اس جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھایا۔ پارلیمنٹ کے باہر سے فیصلے مسلط کرنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ موجودہ حکمراں آٹھ آٹھ قوانین آرڈیننس کے ذریعے مسلط کر رہے ہیں یہ پارلیمنٹ کا تقدس خاص برقرار رکھیں گے۔