کشمیر،آزادی مارچ اور حکومت

322

جب سے آزادی مارچ شروع ہوا ہے حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے ۔اس پر میڈیا میںبھی اسی قسم کے تجزیے شروع ہو گئے کہ یہ سارا کھیل کشمیر ایشو کو دبانے کے لیے اُٹھایا گیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن ایسا چاہتے ہوں یا نہیں ۔ حکومت کشمیر کا ایشو اٹھانا چاہتی ہویا دبانا… بہر صورت نتیجہ کم و بیش کچھ یہی نکل رہا ہے ۔ اگر اسے حکومت کے ذمے قرار دیا جائے تو یہ بات زیادہ غلط نہیں ہو گی ۔ عملاً یہ کھیل ہو رہا ہے کہ میڈیا بھر پور طریقے سے آزادی مارچ کی کوریج کر رہا ہے ۔مولانا فضل الرحمن کی تقریریں ۔ تبصرے وغیرہ چل رہے ہیں ان کے خلاف بیانات بھی چل رہے ہیں ۔ اِدھر سے ایک دو ہیں تو حکومت کی طرف سے 8 سے10 افراد ہیں مجموعی طور پر دس بارہ افراد ہر وقت دھرنے کے حق میں اور مخالفت میں بول رہے ہوتے ہیں ۔ اسلام بیزار اینکرز کو بھی مولانا سے ہمدردی سی ہو رہی ہے ۔ مجموعی طور پر نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ کشمیر میں کرفیو کو92روز گزر گزر گئے بھارت نے پہلے سے اعلان کردہ منصوبے کے تحت مقبوضہ اور پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد کشمیر کے بارے میں ایک نیا نقشہ پیش کر دیااور پاکستان کی جانب سے اس کے جواب میں سب سے بڑا جو قدم اٹھایا گیا وہ مذمت ہے ۔ پیر کے روز کے اخبارات کے مطابق پاکستان نے جموں و کشمیر پر بھارتی نقشہ مسترد کر دیا ۔ اگر دیکھا جائے تو پورے ملک کی سیاسی صورتحال کے سبب کشمیر کا ایشو دب گیا ہے۔ لیکن یہ بھی درست نہیں ۔ درست یہ ہے کہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی اقدامات پر قوم کی جانب سے حکومت اور فوج سے پر زور مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ کوئی کارروائی کی جائے ۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ فوج کشمیر میں داخل کر دی جائے۔لیکن جب سے مارچ شروع ہوا ہے حکومت اور فوج سے جہاد کے اعلان اور فوج کشمیر میں داخل ہونے کا مطالبہ نہیں ہو رہا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مارچ اور اس کے خلاف محاذ کے نتیجے میں کشمیر ایشو دب گیا ہے۔ اس میں الزام دونوں فریقوں کو دیا جا سکتا ہے لیکن انصاف کا تقاضا یہی ہو گا کہ جس نے جتنا حصہ ڈالا ہے اس کو اتنا ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے ۔ عملی طورپر یہ ذمہ داری ریاست کی تھی کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر اقدام کرے ۔ لیکن یہاں سے ایکشن کا صرف ری ایکشن دیا گیا ۔ یعنی صرف تقریر ، بیان بازی اور دھمکیاں یہاں تک کہ بھارت نے اگلا قدم اٹھا لیا ۔ میڈیا کے ذریعے ہنگامے اور کشمیر ایشو دبانے میں80اور20کی شرح ہے ۔ 80فیصد ذمے داری حکومت کی بنتی ہے ۔ اگر وہاں سے کشمیریوں کے لیے تقریر سے بڑھ کر کوئی اقدام کیا گیا ہوتا، فوج کو پیش قدمی کا حکم دیا گیا ہوتا تو میڈیا پر آزادی مارچ نہیں پاک فوج کی پیش قدمی کی خبریں ہوتیں ۔ لیکن اس کے بجائے حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جس نے کنٹرول لائن عبور کی وہ غدار ہوگا۔پھر وزیر اعظم نے حد ہی کر دی ۔ یہ تک کہہ گئے کہ جہاد کی باتیں اور کشمیر میں فوج داخل کرنے کی باتیں کرنے والے کشمیریوں اور پاکستان کے دشمن ہیں ۔ اس قدر خوفزدہ بیان کے بعد تو بھارت کی ہمت بڑھے گی ۔ پھر وہ آزاد کشمیر بھی ہڑپ کرنے کی بات کرے گا ۔ اگر حکومتی الزامات تسلیم کر لیے جائیں کہ مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے کشمیر کا ایشو پیچھے چلا گیا ہے تو بھی حکومت کی جانب سے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ کیا کشمیر کا تحفظ اس کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی کو روکنا اور کشمیری عوام کی مشکلات کو کم کروانا مولانا فضل الرحمن یا کسی ایک سیاسی جماعت کا کام ہے یا یہ ذمہ داری حکومت اور فوج کی ہے پھر صرف آزادی مارچ کو مورد الزام ٹھہرایا جائے ۔ سوچنے اور عمل کرنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح حکومت اپنی ضرورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلا لیتی ہے اور اپوزیشن نے دھرنا جاری رکھنے یا ختم کرنے کے مسئلے پر رہبر کمیٹی کا اجلاس بلالیا اسی طرح کشمیر کے مسئلے پر بات کرنا اور اقدامات تجویز کرنا ان سب کی ذمہ داری ہے ۔کشمیری ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ پاکستان کے حکمراں اور عوام اپنے مسائل میں اُلجھ کر نہ رہ جائیں بلکہ کشمیریوں کی حالت زار پر بھی توجہ دیں ۔ ایک بات یاد رکھنے کی ضرو رہے کہ کشمیر میں مسئلہ انسانی حقوق یا کرفیو کا نہیں ہے مسئلہ بھارتی قبضے کا ہے ۔ اس معاملے کا رُخ کرفیو موبائل اور انٹر نیٹ کی طرف نہیںمڑنا چاہیے ۔دھرنا بھی جاری رہنا چاہیے حکومت سے استعفیٰ بھی مانگنا چاہیے لیکن کشمیر کے مسئلے پر سب کو مل کر اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے ۔ حکومت جہاد کا اعلان کرے ۔ فوج توآگے ہے پوری قوم ان کے پیچھے ہو گی ۔