پھر خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیم میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہم کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ مسئلہ وہی معیار تعلیم اور نظام تعلیم کا ہے۔ سب سے پہلے جو چیز قومی سطح پر طے کرنے کی ہے وہ نظام تعلیم ہے، یکساں نظام تعلیم کے تحت ہی معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کرسکتا ہے۔ ورنہ طبقاتی نظام تعلیم معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔ جس سے تعمیر و ترقی نہیں بلکہ نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ نچلے طبقے کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑی خامی نظام تعلیم میں ہے جہاں شہری، دیہاتی، میٹرک، کیمبرج، مدرسہ کتنے ہی طرز کی تعلیم رائج ہے۔ پھر دیہات میں اردو ذریعہ تعلیم ہے، شہروں میں اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں، دیہات سے بچے تعلیم پا کر شہر میں مزید تعلیم کے لیے آتے ہیں تو نصاب میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان کے اتنے برسوں کی تعلیم پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، طالب علم دلبرداشتہ ہو کر کامیابی کی منازل طے کرنے کے بجائے ناکامی کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں، اکثر اوقات تعلیمی سفر کو یکسر خیرباد کہہ دیتے ہیں۔
معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ ملک کے بعض علاقوں کے سرکاری اور نجی اسکولوں کے پانچویں جماعت کے طلبہ میں سے 48 فی صد اردو تحریر تک نہیں پڑھ سکتے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان شعبہ تعلیم میں اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان بنیادی تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول میں پچاس سال جب ثانوی تعلیم کے میدان میں ساٹھ سال پیچھے ہے۔ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی کل آبادی میں گیارہ کروڑ 30 لاکھ نوجوان ہیں جو کل آبادی کا 65 فی صد بنتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے انسانی سرمائے یعنی (ہیومن کیپٹل) سے متعلق 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 130 ممالک میں 125 ویں نمبر پر ہے۔ حالاں کہ کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی اس کے لیے سرمایہ ہوتی ہے، جس کو تعلیم و تربیت فراہم کرکے ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی نوجوانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جارہا۔ اس کی وجوہات میں اسکولوں میں بچوں کا داخلہ نہ ہونا، ناقص بنیادی تعلیم اور نظام تعلیم اور فنی تربیت کا فقدان ہے اور ان میں سب سے بڑی وجہ ابتدائی تعلیم اردو کے بجائے انگریزی ہے۔ اس وقت ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب یہ 2 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو بڑے ہو کر یہ صرف محنت اور مزدوری کرنے والے کام ہی کرسکیں گے۔ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصے کی صلاحیت قومی سطح پر ضائع ہوجائے گی۔
پچھلے دنوں جاپان کے قونصل جنرل نے کراچی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان میں تعلیم اپنی زبان میں خاص طور سے اور تکنیکی یعنی فنی تعلیم عام ہوجائے تو پاکستان کی غیر معمولی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ جاپان کی ترقی کی بنیادی وجہ اس کا جاپانی زبان میں تعلیمی نظام کا ہونا ہے۔ جاپان کے پاس کسی قسم کے قدرتی وسائل نہیں ہیں اس کے باوجود جاپانی قوم ترقی کی بلندیوں پر ہے، تعلیم ہی کے ذریعے ہم ایٹمی حملوں اور زلزلوں سے کامیابی سے نمٹتے رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں دقیانوسی تعلیمی نصاب اور انگریزوں کے زمانے کا نظام تعلیم ہے۔ فنی تعلیم پر توجہ نہیں ہے، جب کہ ضروری ہے کہ اس قدر بڑی نوجوانوں کی آبادی کو قوم کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے اپنی زبان میں بھرپور فنی تعلیم دی جائے۔ خواہ اس کی ڈگری انجینئرنگ سے کم ہو لیکن وہ ایک اچھا روزگار ضرور فراہم کرنے والی ہو۔ اس طرح یہ نوجوان ہمارے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی بن سکیں گے، ان شاء اللہ۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم اردو اور نظام تعلیم یکساں ہونا چاہیے۔ انگریزی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائی جانی چاہیے نہ کہ ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو سرکاری تعلیمی دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر اختیار نہیں کرسکے ہیں۔ حالاں کہ قومی زبان قومی یک جہتی کا بھی باعث بنتی ہے۔