بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا قانون منظور کرنے کے تقریبا تین ماہ بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کو باضابطہ طور پر تقسیم کرکے بھارت میں ضم کرلیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کی نئی ریاست قرار دیا گیا ہے جبکہ مقبوضہ لداخ کو یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا ہے ۔ بھارت نے 31 اکتوبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کے باضابطہ خاتمے کی جو کارروائی کی ہے وہ اچانک نہیں ہے ۔ 5 اگست کے بعد سے ہی یہ تاریخ مقرر کردی گئی تھی ۔ اسے پاکستان کی ناکامی ہی قرار دیاجائے گا کہ تین ماہ میں پاکستان نے بھارت کی پیش قدمی کوروکنے کی ایک مرتبہ بھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی ۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کی آنیاں اور جانیاں ضرور جاری ہیں اور کبھی وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرتے ہیں تو کبھی وہ کشمیریوں کی پشت پر چلے جاتے ہیں ۔ ہر بیان میںپاکستانی حکمراں عملی طور پر بھارت کی مدد کرتے نظر آتے ہیں ۔ ایک مرتبہ بھی پاکستان نے بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی بات ہی نہیں کی اور نہ ہی کشمیر کی آزادی کا کیس کہیں پر لڑنے کی کوشش کی ۔ ہر مرتبہ پاکستانی حکمراں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کی بات کرتے رہے۔ اسے بھارت کی کامیابی ہی کہا جائے گا کہ بھارت یوں آسانی سے کشمیر ہڑپ کرگیا اور پاکستانی قوم حیرت سے اپنے حکمرانوں اور ان کے سلیکٹروں کو تک رہی ہے۔ پاکستان کی سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ پاکستان کرتارپور کی سرحد کھولنے کے لیے مرا جارہا ہے ۔ کرتارپور کی سرحد کھولنے کے معاہدے کی تقریب میں پاکستانی اور بھارتی حکام یوں گھلے ملے نظر آرہے تھے جیسے کشمیر میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے ۔ کشمیر پر قبضے کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کسی اور ملک کو تو کیا تیار کرتا ، خود پاکستان نے ہی کوئی کارروائی نہیں کی اور یوں بھارت کو واک اوور دیا ۔ ہم اس امر کی تسلسل سے نشاندہی کررہے ہیں کہ پاکستان کو سب سے پہلے بھارتی فضائی کمپنیوں پر پاکستانی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عاید کرنی چاہیے تھی ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو افغانستان کے لیے فراہم کردہ تجارتی راہداری کو بھی واپس لے لینا چاہیے تھا مگر پاکستان صرف اور صرف ہوا میں باتیں کرتا رہا ۔ بھارت نے جو کچھ بھی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کیا ہے ، تاریخ میں ضرور یہ بات درج ہوگی کہ جب بھارت کشمیر کو ہڑپ کررہا تھا تو پاکستان عملی طور پر بھارت کی مدد کررہا تھا ۔ تاریخ میں یہ حقیقت بھی درج ہوگی کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے مطالبے کی پاداش میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے ، عقوبت خانوں میں بدترین تشدد پر ڈٹے ہوئے تھے مگر پاکستان زبانی طور پر کہہ کچھ رہا تھا اور عملی طور پر کر کچھ اور رہا تھا ۔ بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا فعال کردار رہا ہے ۔ بھارت صرف پاکستان کے ساتھ مشترک سرحد پر مصروف عمل نہیں ہے بلکہ وہ ایران اور افغانستا ن کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر بھی فعال ہے ۔ کلبھوشن یادیو کی گواہی اس امر کا ثبوت ہے تو پھر پاکستان کیوں بھارت کے ساتھ نرمی برت رہا ہے ۔ کیا عمران خان اور ان کے سلیکٹر اس انتظار میں ہیں کہ بھارت پاکستان میں اپنے مذموم مقاصدکے لیے پیش قدمی جاری رکھے اور پاکستانی قوم کو بھارتی کتوں کے آگے ہاتھ پیر باندھ کر ڈال دیا جائے ۔ اگر عمران خان اور ان کے سلیکٹر اس خوف کا شکار ہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی جوابی کارروائی میں ان کی جان و مال کو نقصان پہنچے گا تو بہتر ہوگا کہ وہ اپنی جان اور مال کو لے کر کسی اور ملک کو کوچ کرجائیں ۔ پاکستانی قوم وہ قوم ہے جو گزشتہ چالیس برسوں سے دنیا کی دو سپر طاقتوں سے نبرد آزما رہی ہے ۔ کچھ تو ہے جو امریکا روز پاکستان کی خوشامد کرتا ہے کہ اسے افغانستان سے واپسی کے لیے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے ۔ امریکا کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ افغانستان سے زندہ جانا تو کجا اپنے فوجیوں کی لاشیں بھی لے کر نہیں جاسکتا ۔ اس سے کمتر پوزیشن ترکی کو حاصل ہے مگر اس نے امریکا کا املا لینے کے بجائے اور امریکا کو اپنا املا کروایا ہے۔ بھارت کے سامنے اگر پاکستان کمزور پوزیشن میں کھڑا ہے توا س کی وجہ پاکستانی فوج کی نااہلی یا پاکستانی قوم کی کم ہمتی نہیں ہے ، یہ صرف اور صرف عمران خان اور ان کے سلیکٹروں کی بزدلی اور درست فیصلے نہ کرسکنے کی اہلیت ہے جس نے آج پاکستانی قوم کو غم و اندوہ میں ڈبودیا ہے ۔ عمران خان ایک کھلاڑی رہے ہیں ، وہ یہ بات جانتے ہوں گے کہ کوئی ٹیم کھیل کر اور اپنی پوری کوشش کرکے ہارے تو اس کا مورال ڈاؤ ن نہیں ہوتا مگر جیتنے کی اہلیت ہونے کے باوجود اگر اوپر والوں کے احکامات یافرمائش پر ٹیم کو زبردستی ہروایا جائے تو پھر وہ آئندہ کے میچ بھی جیتنے کی خواہش کھو بیٹھتی ہے ۔