دہشت گردی۔ مزید تشریح کی ضرورت

468

عدالت عظمیٰ نے دہشت گردی کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذاتی جھگڑے دہشت گردی سے خارج ہیں۔ مذہبی نظریاتی سیاسی مقاصد کے لیے پرتشدد کارروائیاں ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز پر حملے دہشت گردی ہیں۔ صحافیوں، تاجروں اور سماجی شعبوں پر منصوبہ بندی کے ذریعے حملے اور خوف و ہراس پھیلانا دہشت گردی ہیں۔ جہاں تک ذاتی دشمنی کی بنیاد پر کسی کی جان لینے کو دہشت گردی کی تعریف سے خارج کیا گیا ہے یہ بالکل درست ہے۔ ایک دو یا تین چار قتل جرم ہیں لیکن ان کو دہشت گردی میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس تشریح سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہماری پولیس ہرگز گرفتار شخص پر انسداد دہشت گردی کی دفعہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ اب تو کسی کے پاس سے فون، لیپ ٹاپ وغیرہ برآمد ہو جائیں تو سی ٹی ڈی دہشت گردی کی دفعات ڈال دیتا ہے۔ اس فیصلے کے دور رس اثرات ہوں گے لیکن ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے سے کہاں کہاں کون کون متاثر ہوگا۔ بعض امور ابھی وضاحت طلب ہیں جیسا کہ ذاتی جھگڑے میں کسی کے گھر پر بم مار دینا یا خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کرکے درجنوں لوگوں کو ہلاک کر دینا دہشت گردی میں شامل ہوں گے یا نہیں۔ کسی محلے میں دس بارہ افراد اچانک قتل ہو جائیں تو کیا وہاں دہشت نہیں پھیلے گی۔ اسی طرح جلائو ،گھیرائو اور بھتا خوری کو بھی دہشت گردی سے خارج کر دیا گیا ہے۔ تو کیا سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں زندہ جلائے گئے افراد کا مقدمہ دہشت گردی کے زمرے سے باہر ہو جائے گا؟ بھتا خوری کو بھی دہشت گردی کے زمرے سے باہر کر دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بھتا خوری ایک جرم ہے لیکن کراچی جیسے شہر نے تو اس جرم کو باقاعدہ آرٹ بنانے والی جماعت کا طویل دور دیکھا ہے۔ کراچی میں اگر کسی کے پاس بھتے کی پرچی آجائے تو اس کی تو خوف کے مارے ہی جان نکل جاتی ہے۔ اگر عدالت کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی کہ کراچی شہر میں صرف بھتا نہ دینے پر کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور بھتے کی پرچیوں پر کیا رقم لکھی ہوئی تھی تو یہ عدالت کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی میں بھتے کی پرچیوں پر دس بیس ہزار نہیں چند لاکھ نہیں کروڑوں روپے کی رقم لکھی ہوئی تھی۔ سانحہ بلدیہ ٹائون بھتے کی رقم نہ دینے کا شاخسانہ ہی تو تھا۔ کراچی میں بڑے برے صنعتکاروں، تاجروں سے لے کر دکانداروں تک کے قتل بھتا نہ دینے پر ہوئے ہیں۔ بہادرآباد میں چائے کے ہوٹل والے کو ایک کروڑ روپے بھتے کی پرچی دی گئی تھی۔ بھتا نہ دینے پر اسے قتل کر دیا گیا۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری والوں کو بھی دو چار لاکھ دینے کا نہیں کہا گیا تھا کہا جاتا ہے کہ دس کروڑ سے زیادہ کا مطالبہ تھا لیکن کون تصدیق کرے گا۔ بہرحال یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کیا جلائو گھیرائو اور بھتے کے واقعات میں سے کون سے دہشت گردی کے زمرے سے باہر ہوں گے۔ خود فوج رینجرز اور نواز شریف کی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ ہم نے اہل کراچی کو بھتا اور قتل و غارت کی دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلائی ہے۔ بہرحال دہشت گردی میں کیا شامل ہے اور کیا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں قانون اور اختیارات ہیں وہ کیا کرتے ہیں، ان کو کس طرح لگام ڈالی جائے۔ عدالت کے تفصیلی فیصلے کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلے گا کہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگانے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی تجویز کی گئی ہے۔ یہاں تو پولیو کے قطرے نہ پلوانے پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ پولیس فورس خود امن و سکون کی علامت کے بجائے دہشت گردی کی علامت بن چکی ہے۔ رائو انوار ان ہی عدالتوں سے ضمانت پا کر آزاد ہو گئے۔ ساڑھے چار سو افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام تھا۔ جبکہ محض شک کی بنیاد پر یہی پولیس والے کسی کو بھی قتل کر دیتے ہیں اور شک کا فائدہ اٹھا کر بری ہو جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں خرابی قانون میں نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والوں میں ہے خواہ وہ پولیس، رینجرز، فوج یا ایجنسی ہوں یا حکومت اور اس کے دیگر ادارے۔ فیصلے کے مطابق صحافیوں، تاجروں، عوام اور سماجی شعبوں پر منصوبہ بندی کے تحت حملے اور خوف و ہراس پھیلانا بھی دہشت گردی ہے۔ لیکن حکومت تو خود منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ اخبارات کے اشتہارات کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جارہی جس پر مالکان صحافیوں کو بیروزگار کر رہے ہیں۔ پورے شعبے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ روزانہ بیس پچیس، کبھی کبھی سو سو افراد نکالے جاتے ہیں ار تاجروں کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ ایف بی آر مسلسل اس شعبے پر خوف کی علامت کے طور پر مسلط ہے۔ ہر تاجر پریشان ہے۔ دو روزہ ہڑتال اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ان حکومتی اقدامات پر دہشت گردی کی کون سی دفعات لاگو ہوں گی۔ اور مذہبی اور نظریاتی کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ بسا اوقات ہمارے حکمران اور ادارے فرقہ واریت اور رسوم و رواج کو مذہب قرار دے دیتے ہیں اس کی وضاحت ہونی چاہیے کہ محض فرقہ واریت یا رسوم و رواج کی خاطر قتل و غارت اور جلائو گھیرائو کو مذہب قرار نہیں دیا جاسکتا… بہرحال اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ نے درست قدم اٹھایا ہے۔ یہ سلسلہ چلے گا تو بہت سے ابہام دور ہو جائیں گے۔