مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں آزادی مارچ آج اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ اس کے بعد کیا ہوگا، اس کا اندازہ آج کل میں ہو جائے گا۔ یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے کہ آزادی مارچ کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ خود مولانا فضل الرحمن بھی یکسو نہیں ہیں کہ اسلام آباد پہنچ کر وہ کیا کرنے والے ہیں۔ حکومت نے انہیں ڈی چوک نہ جانے پر تو راضی کر لیا ہے اور پشاور موڑ کے قریب ہی ایک بڑا میدان ہموار کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی کہ اس میدان سے قدم باہر نکالا تو قانون حرکت میں آ جائے گا۔ لیکن خود عمران خان نے اگست 2014ء میں یہی حرکت کی تھی کہ آبپارہ سے آگے نہ بڑھنے کا وعدہ کرکے ڈی چوک پہنچ گئے تھے اور وہاں جو کچھ کیا وہ سب کے علم میں ہے۔ عمران خان کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف استعفا دیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک گرم جوش ساتھی تو یہ دعوے کر رہے تھے کہ ایوان وزیراعظم میں گھس کر نواز شریف کو گریبان سے پکڑ کر کھینچ لائیں گے اور پورے ملک میں آگ لگا دیں گے۔ شاہ کی وفاداری کے اس اظہار پر انہیں وفاقی وزارت مل گئی۔ مولانا فضل الرحمن بھی اب تک اس مطالبے پر قائم ہیں کہ عمران خان استعفا دیںورنہ اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔ لیکن انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب اسٹیبلشمنٹ پوری طرح اور اعلانیہ عمران خان کی پشتیبان ہے تو وہ استعفا کیوں دیں گے اور ان سے استعفا کون لے گا۔ حکمران طبقہ آہستہ آہستہ اپنی دھمکیوں سے پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بڑے جوش و خروش سے کہہ رہے تھے کہ کسی کو اس صوبے سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ ایسا کرتے تو وہیں پر حالات بے قابو ہو سکتے تھے تاہم اب عدالت عالیہ پشاور نے حکم جاری کیا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں، خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع اور اٹک تک دھرنے کے شرکاء کے لیے سڑکوں کو کھلا رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی رکاوٹ غیر قانونی تصور ہوگی، کسی کو بھی آئینی طور پر امن مارچ سے نہیں روکا جا سکتا۔ اٹک کا پل بھی بند کر دیا گیا تھا حالانکہ عمران خان کے دھرنے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک، جو آج کل وزیر دفاع ہیں، خود جلوس لے کر اسلام آباد پہنچے تھے۔ اب اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ مراعات یافتہ طبقے کے سوا ہر ایک مہنگائی سے تنگ ہے اور زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ آزادی مارچ میں بیشتر افراد اس لیے بھی شریک ہیں کہ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اور حال بے حال ہے۔ اس وقت ہر طبقہ حکومت سے ناراض ہے۔ تاجر دو دن کی ہڑتال کر چکے ہیں جن کو عارضی طور پر منا لیا گیا ہے کہ شناختی کارڈ کی شرط تین ماہ کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں مشیر خزانہ مصر ہیں کہ وہ معیشت کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال بھی جاری ہے جس کا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور جو افراد بیمار ہیں وہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے۔ اس وقت کون سا طبقہ ہے جو نارض نہیں ہے۔ لبنان میں مہنگائی کے خلاف کئی دن پرتشدد احتجاج اور کئی افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم سعد حریری استعفا دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مصر اور کچھ دیگر ممالک میں بھی مہنگائی کی وجہ سے ہنگامے ہو رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں بھی حالات اس نہج پر پہنچیں کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور ملک بھر میں ہنگامے شروع ہو جائیں۔ عمران خان لبنان کی صورت حال سے سبق حاصل کریں۔ وہ یہ کہہ کر جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں کہ مہنگائی کہاں ہے۔ تاہم اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان مستعفی ہو گئے اور نئے انتخابات ہونے لگے تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت آئے گی یا مخلوط حکومت بنے گی یا کوئی تیسری قوت ہاتھ صاف کرے گی۔ عوام کی بے زاری اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اس حکومت سے ہر حال میں پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں خواہ کوئی آجائے۔ انتخابات کرانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت ہی کو لگام دی جائے اور اسے راستے سے نہ ہٹنے دیا جائے۔ حکومتی اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی کی طرف سے فضل الرحمن اور مارچ پر حملے کا خدشہ ہے۔ افراتفری پھیلانے کے لیے یہ کام کسی سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے تو حکمران طبقہ کہہ رہا تھا کہ مارچ را کے اشارے پر ہو رہا ہے۔