کشمیریوں اور پاکستان سے وزیر اعظم کی دشمنی

544

وزیر اعظم عمران خان نے ساری کسر پوری کردی ۔کشمیر کے مسئلے کا جو ممکنہ حل جذباتی یا ٹھنڈے مزاج کے لوگ تجویز کررہے تھے ان میں سے ایک جہاد کا اعلان اور کشمیرمیں پاکستانی فوج داخل کرنا تھا۔ لیکن وزیر اعظم نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ ہم سے جہاد ہوسکتا ہے نہ اس کا اعلان اور یہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان میں فوج کو حکم دینا کسی متنازع وزیراعظم کے بس میں نہیں۔ اگر حکم دیا تو بھی متنازع ہی ہو جائے گا لہٰذا انہوں نے فرمایا ہے کہ جہاد اور فوج کشمیر میں بھیجنے کی باتیں کرنے والے پاکستان اور کشمیر دشمن ہیں۔ اتنی بری طرح پسپائی!!!! چند روز قبل تک وہ ٹیپو سلطان بننے کی باتیں کررہے تھے اور اب خوفزدہ! کہتے ہیں کہ ہندوستان چاہتا ہے پلوامہ جیسا واقعہ ہو اور وہ پاکستان پر حملہ کردے۔ ہمارے وزیر اعظم پاکستان بھارتی حملے سے بھی خوفزدہ ہیں بلکہ سب کو خوفزدہ کررہے ہیں۔ کل تک یہی وزیر اعظم اور ان کی ہمنوا قوال پارٹی تالیاں پیٹ پیٹ کر کہہ رہی تھی کہ آزاد کشمیر پر حملہ کر کے دکھائو۔ آنکھیں نکال دیں گے۔ ٹانگیں توڑ دیں گے۔ بھارت کو تباہ کردیں گے۔ تو اب کیا ہوگیا۔ وزیر اعظم اس وقت اس قدر حواس باختہ ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کشمیر کا دفاع کریں، حکومت بچائیں یا نواز شریف اور زرداری کو پھانسی لگائیں۔ 99روپے والا ڈالر 156 روپے پر پہنچانے کے بعد وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ روپیہ مستحکم ہوگیا۔ ان کو معیشت کا پتا ہے نہ سیاست کا۔ حتیٰ کہ کشمیریوں کے جذبات کا بھی پاس نہیں۔ تین ماہ سے جو کشمیری مسلسل کرفیو میں بند ہیں موبائل، انٹرنیٹ ہر طرح کے رابطے منقطع ہیں خوراک، دوائیں اور تجارتی سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں اس کے بارے میں جہاد کی باتیں کرنے والوں کو انہوں نے کشمیریوں کا اور پاکستان کا دشمن قرار دیا ہے۔ کیا ہوا ان کے ان دعوئوں کا بلکہ بڑھکوں کا کہ بھارت کی آنکھیں ، دانت اور ٹانگیں توڑ دوں گا۔ وزیر اعظم جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کشمیریوں کا دشمن قرار دے رہے ہیں حالاں کہ ان کا اپنا بیان کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی ہے۔ اس قدر بزدلی والا بیان تو شاید مسلمانوں کی تاریخ میں کسی حکمران نے نہیں دیا ہوگا۔ حکمران تو قوم کی ڈھال ہوتے ہیں وہی اس قدر بزدلی کی باتیں کریں گے تو قوم کا مورال کہاں جائے گا۔ بھارت کی حکومت نے 5اگست کو جو اقدام کیا ہے وہ پلوامہ واقعہ سے زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بزدلانہ بیان دیا بھی ایسے روز جس روز ساری دنیا میں کشمیری اور پاکستانی 27 اکتوبر 1947ء کے بھارتی فوج کشی کے اقدام کے خلاف یوم سیاہ منا رہے تھے۔ 27اکتوبر کا بھارتی اقدام ہی کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بہت بڑا اقدام تھا پلوامہ واقعے کی تو اس کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ پاکستانی قوم میں وزیر اعظم کے بیان پر نہایت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ملک کا ہر سنجیدہ فرد اس پر وزیر اعظم سے معافی کا مطالبہ کررہا ہے۔ لیکن معافی مانگنا تو درکنار وہ تو فریڈم ٹری کاشت کررہے ہیں معلوم نہیں اس سے کشمیریوں کو آزادی کیسے نصیب ہوگی۔ یہ مغرب کی رسومات ہیں مسلمانوں کی روایت تو جہاد ہے۔ حیرت ہے علمائے کرام نے بھی وزیر اعظم کے جہاد کے بارے میں بیان کا نوٹس نہیں لیا۔ آئینی طور پر تو فوج حکومت کے ماتحت ہے اس لیے فوج سے براہ راست شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان میں بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جن کا حکم سیاسی اور منتخب حکومت نے نہیں دیا ہوتا اور فوج وہ کررہی ہوتی ہے۔ تو پھر کشمیر کے معاملے میں بھی فوج کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف بھی وزیر اعظم کو بتائے بغیر کارگل پر چڑھ دوڑے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں کہ ہم بھارت کو گردن سے پکڑ لیا تھا۔ یہ بات کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ فوج کشی سے پیدا ہوا تھا اور جو مسئلہ جس طرح پیدا ہوتا ہے اسے حل بھی اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم اسے سیاسی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ سیاسی مسئلہ ہرگز نہیں۔ بھارت نے طاقت کے بل پر کشمیر پر قبضہ جمایا ہے اور یہ جو آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ ہے اگر قبائل نے طاقت استعمال نہ کی ہوتی تو یہ بھی آزاد نہ ہوتا۔ گلگت بلتستان بھی طاقت سے آزاد ہوا تھا۔ جس اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیریوں کو حق دلوانے کی بات کررہے ہیں اس نے 72برس میں کوئی مسئلہ حل کرایا ہو تو بتایا جائے، خصوصاً مسلمانوں کا تو ہر مسئلہ اس نے مزید الجھایا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ مدعی نے خود مقدمے کو الجھایا ہے کیوں کہ اپنے ملک کے لوگوں پر بم برسانے اور ان کے انسانی حقوق سلب کرنے کی تو جرأت ہوتی ہے لیکن دشمن کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے تو حجاج بن یوسف اور اسلامی تاریخ کے تمام جرنیلوں کو بھی مظلوموں کا دشمن قرار دے دیا۔ حجاج نے بلاوجہ محمد بن قاسم کو راجا داہر کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ بلاوجہ ہندوئوں کی محبت رکھنے والوں کو راجا داہر کے حق میں پروپیگنڈے کا موقع مل گیا جو آج تک جاری ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِین کہنے والے حکمران کو جہاد کے بارے میں ایسی بے ہودہ بات پر توبہ کرنی چاہیے اور اللہ اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔