ڈیل کا شک توپیدا ہوگا

371

اس قدر کیچڑ ہو چکا ہے کہ اب کیچڑ ہی اچھلے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ڈیل کے ذکر پر برہم ہوئی ہے۔ نجی ٹی وی کے 5 میزبانوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے ان کو توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری ہو گئے ہیں۔ اس نوٹس کی سماعت ہوئی ہے رپورٹ طلب کی گئی ہے اس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں لیکن کیچڑ والے تبصرے پر تو تبصرہ بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیس بعد میں آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ کیا ادارے ڈیل کا حصہ ہیں۔ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بدنام کیا جارہا ہے۔ جسٹس محسن اختر نے پیمرا کے ذمے داران سے استفسار کیا ہے کہ ٹی ووی پر ریڑھی والے کی زبان بولی جا رہی ہوتی ہے اور پیمرا حکام اسے انجوائے کرتے ہیں! ان کا یہ استفسار بجا ہے۔ جس وقت ٹی وی چینلز، مولانا، مولوی، ملا اور اسلام کے خلاف لوگوں کو ہر قسم کی زبان استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس وقت پیمرا حکام یقینا انجوائے کرتے ہوں گے۔ جس وقت نام نہاد دانشور اور تجزیہ نگار صرف سویلین قیادت، صرف سیاستدانوں کو برا بھلا بلکہ ملک کا دشمن اور غدار تک قرار دیتے ہیں اس وقت یہ پیمرا حکام انجوائے ہی کرتے ہوں گے۔ خرابی تو اس وقت آتی ہے جب کوئی عدلیہ، فوج، خفیہ ایجنسیوں یا حکمرانوں پر تبصرہ کرتا ہے تو سارے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی ضمانت اور مریم نواز کی ضمانت کے حوالے سے تبصروں کو میڈیا نے خوب اچھالا ہے۔ عدالت نے ٹی وی کے اینکرز کو تو طلب کرلیا ہے لیکن اٹارنی جنرل کو بھی طلب کیا جانا چاہیے جو عدالتی کارروائی پر میڈیا میں کھلے عام تنقید کر رہے ہیں ان کا جملہ عدالت پر براہ راست تنقید ہے کہ جس طرح عدالتی کارروائی چلی اس پر افسوس ہوا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بجا کہا ہے کہ کیس بعد میں آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کام پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا۔ پاکستان میں ہر اس کیس میں یہی ہوتا ہے جو حکمرانوں اور اداروں کی جانب سے ہو یا حکومت اور اداروں کے مخالفوں کو جس میں رگڑا دینا ہو اس کیس میں میڈیا ٹرائل پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ اس کا تو عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم نے تین سال سے میڈیا پر یہ ہنگامہ اٹھا رکھا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف چور ہیں۔ اس چور چور کا شور بھی مچا اور فیصلے بھی ایسے ہوئے کہ یہ لوگ مجرم قرار پائے۔ اب کوئی بھی یہ الزام دے سکتا ہے کہ ادارے ملے ہوئے ہیں۔ یہ لفظ ڈیل ہے تو قابل اعتراض لیکن کیا کریں اس ملک میں یہ کام تو طویل عرصے سے ہو رہا ہے اور اداروں کے حصہ لیے بغیر کوئی ڈیل ہوتی ہی نہیں۔ کبھی دو ادارے ڈیل کرتے ہیں اور ریلیف تیسرے سے دلواتے ہیں۔ اور کبھی دو سیاسی قوتیں ڈیل کرتی ہیں اور ایک ادارہ ایک فریق کو ریلیف دلواتا ہے۔ یہاں تو الیکشن میں بھی ڈیل ہوتی ہے اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ بھی ڈیل ہوتی ہے۔ درجنوں مقدمات ختم کر کے ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر بنایا جاتا ہے اور تین حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ اسی طرح کراچی کے میئر وسیم اختر مقدمات کی موجودگی میں میئر بنے اور ہیں۔ وزرا کا حال بھی یہی ہے۔ کوئی کوئی جہانگیر ترین ہوتا ہے۔ ورنہ کون ہے جو اس ڈیل کے چکر کے بغیر آگے بڑھا ہو۔ جہاں تک بات کیچڑ کی ہے تو احتیاط بالائے طاق… اس ملک کا عدالتی نظام کیچڑ سے بھرا ہوا ہے۔ اگر چند روز قبل کا چیف جسٹس کا بیان نظر کے سامنے لایا جائے تو وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ عدالتوں کو ایک جھوٹا گواہ گمراہ کر سکتا ہے۔ باقی اوپر کا دبائو پیسوں کا کھنچائو،پسند نا پسند رنجشیں یہ سب بھی ہے اس پورے نظام میں کیچڑ ہی کیچڑ ہے۔ تو پھر کیچڑ سے اور کیا اچھلے گا۔پورے عدالتی نظام میں گڑ بڑ ہے۔ کیا عدلیہ کے ذمے داروں کو پتا نہیں کہ ان کی ناک کے نیچے وکیل گڑ بڑ کر رہے ہیں… ایک حساس مقدمہ بنتا ہے اور کئی ماہ چلتا ہے۔ اس میں کئی کئی مرتبہ بینچ بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ ججوں کی وڈیوز سامنے آچکی ہیں۔ وڈیو بنانے والا تو مجرم قرار دیا جا رہا ہے لیکن جس نے ناچ گا کر حرکتیں کی ہیں اس کا کیا بنا؟ نیب کے سربراہ کی وڈیو بھی سامنے ہے۔ یہ سب اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان بہت تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ عدالتوں کو جلد ازجلد اپنے نظام سے کیچڑ صاف کرنا ہوگا ورنہ کیچڑ ہی اچھلے گا۔