آج تحریک آزادیٔ کشمیر ایک فیصلہ کن موڑ پر آکھڑی ہوئی ہے۔ ہر کشمیری پرعزم ہے کہ ہر قربانی دے گا، مگر بھارت کی بالادستی قبول نہیں کرے گا۔ آزادی کشمیر ہر بڑے چھوٹے اور مردوخواتین کے دل کی آواز ہے۔ آج وہ شخصیات یاد آتی ہیں جنہوں نے آزادی کشمیر کے لیے پوری زندگی لگا دی۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا حال آج کے مضمون کا عنوان ہے۔ راقم 1961ء میں نویں کلاس کا طالب علم تھا، سردیوں کی ایک صبح اسکول اسمبلی میں اساتذہ کی صف میں ایک اجنبی چہرہ دیکھا۔ ہر لڑکا سوچ رہا تھا کہ یہ کوئی طالب علم ہے یا استاد۔ چہرے سے سادگی اور سنجیدگی نمایاں تھی۔ گول چہرے پر چھوٹی چھوٹی سیاہ ڈاڑھی اور سر پر قراقلی ٹوپی۔ ہیڈ ماسٹر جناب سعیداللہ خان نے بتایا کہ اسٹاف میں ایک نئے رکن کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کا نام سید منور حسین مشہدی ہے اور یہ جامعہ عربیہ گوجرانوالہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ مولانا محمد چراغ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ یہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کو عربی پڑھایا کریں گے۔ یہ تھا مشہدی صاحب سے پہلا تعارف۔
سید منور حسین مشہدی اسکول میں تھوڑے عرصے کے لیے ہی رہے لیکن اپنی خوش اخلاقی سے حسین یادیں چھوڑ کر گئے۔ موصوف آزاد کشمیر، نکیال ضلع کوٹلی میں ایک گائوں خیر پور سیّداں میں سید عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی۔ پھر جامعہ عربیہ گوجرانوالہ میں داخل ہو گئے۔ یہاں مولانا محمدچراغ اور حافظ محمد انور کی خصوصی شفقت ان کو حاصل رہی۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد موصوف چنن تشریف لائے۔ کچھ عرصے بعد واپس گوجرانوالہ چلے گئے۔
1970ء میں یو کے اسلامک مشن کو اپنی مختلف مساجد اور مراکز کے لیے امام، خطیب اور مدرسین درکار تھے۔ چنانچہ موصوف 1973ء میں برطانیہ چلے گئے۔ اپنی خدمات کا آغاز ہمپٹن جامع مسجد میں امام اور خطیب کی حیثیت سے کیا۔ جب برمنگھم میں پیغامِ اسلام ٹرسٹ کے نام سے بڑی مسجد اور مرکز وجود میں آیا تو ان کی خدمات برمنگھم منتقل کر دی گئیں۔ مشہدی صاحب کا تعلق کشمیر سے بھی تھا اور تحریکِ اسلامی سے بھی، اس لیے فطری طور پر وہ چاہتے تھے کہ برطانیہ میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو منظم کرکے اس کے زیر اہتمام مختلف پروگرام تر تیب دیے جائیں۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر سے تحریکِ اسلامی کے رہنما مغربی ممالک، بالخصوص برطانیہ کے دورے کرتے رہتے تھے۔ برطانیہ کے کئی شہروں میں آزاد کشمیر سے منتقل ہونے والی آبادی بڑی تعداد میں ہے۔ بلاشبہ وہاں کام کے مواقع بھی تھے۔
1970ء کی دہائی میں تحریکِ کشمیر برطانیہ کے نام سے ایک تنظیم رجسٹر کروائی گئی۔ 1985ء میں تنظیم نے ایک عمارت خرید کر اپنا دفتر قائم کیا اور مختلف شہروں میں اپنی برانچیں بھی قائم کر دیں۔ تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت پاکستانی آبادی میں متعارف کرانے کے ساتھ برطانوی باشندوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی آگاہی دی جائے۔ مشہدی صاحب تحریکِ کشمیر برطانیہ کے پہلے اجلاس ہی میں اس کے صدر منتخب ہوئے اور پروفیسر خورشید احمد کی خصوصی رہنمائی میں انہوں نے اپنی تنظیم کو منظم کرنے کا بِیڑا اٹھایا۔ وہ شعلہ نوا خطیب بھی تھے اور دردِ دل سے مالا مال داعی حق بھی۔ ان کی کاوشوں سے تنظیم نے بہت جلد ملک بھر میں اپنی شاخیں قائم کر لیں۔
مولانا مشہدی ان تھک آدمی تھے۔ مسلسل سفر، خطابات اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے مقصد کو اجاگر کرنے میں لگے رہے۔ پھر یہاں قیام کے دوران مشہدی صاحب کو کینسر کا موذی مرض لا حق ہوگیا۔ ان کی ڈاڑھی اور سر کے بال جھڑ گئے۔ میں 2005ء برطانیہ گیا تو مشہدی صاحب سے کسی پروگرام میں ملاقات نہ ہو سکی۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ مریض ہیں اور سفر نہیں کر سکتے۔ میں ان کے گھر مانچسٹر میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کی صحت واقعی کمزور تھی لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور بشاشت قائم تھی۔ بال جھڑ جانے کی وجہ سے وہ بارعب چہرہ جو ریشِ مبارک کی وجہ سے سب کو متاثر کرتا تھا بالکل خزاں کی طرح نظر آرہا تھا۔ گفتگو کے دوران مشہدی صاحب نے بتایا کہ ان کے معالج پُرامید ہیں کہ بیماری پر قابو پا لیا جائے گا۔
فروری 2006ء میں ایک دن مجھے فون آیا۔ مشہدی صاحب خود بول رہے تھے۔ میں نے پوچھا، حضرت کہاں ہیں اور کیا حال ہے؟ فرمانے لگے اللہ کا شکر ہے، حال بہت اچھا ہے اور میں گوجرانوالہ میں ہوں۔ خوشگوار حیرت ہوئی۔اگلے روز میں ان کے گھر پر حاضر ہوا تو ان کے بیٹوں نے استقبال کیا۔ تھوڑی دیر میں مشہدی صاحب بھی اندر سے تشریف لائے۔ میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر بھرپور ڈاڑھی اور سر پر بال موجود تھے۔ اللہ کی رحمت اور اپنی قوتِ ارادی سے انہوں نے بیماری کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ خدا بھلا کرے ان معالجین کا جنہوں نے نہایت مہارت اور احتیاط کے ساتھ ان کا علاج کیا اور انہیں پُر امید رکھا۔
مشہدی صاحب صحت مند ہونے کے بعد پھر اپنے کام میں جت گئے لیکن انہیں احساس تھا کہ ان کی صحت بحال ہوجانے کے باوجود اب پہلے جیسی قوت و توانائی ان کے جسم میں نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ساتھ اپنے معتمد ساتھی غالب صاحب کو تیار کیا کہ وہ تحریک کی ذمے داریاں سنبھال سکیں۔ میں مئی جون 2007ء میں برطانیہ گیا تو مشہدی صاحب سے برمنگھم کی تربیتی کانفرنس میں ملاقات ہوئی۔ پھر مانچسٹر میں بھی ملاقات رہی۔ مشہدی صاحب خاصے نڈھال اور نحیف تھے لیکن پروگراموں میں آتے رہے۔
مشہدی صاحب کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے تھے۔ سردار محمد عبدالقیوم خان اور بیرسٹر سلطان محمود کے منہ پر کلمۂ حق کہہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی مجلس میں کسی نے ان سے کہا کہ مشہدی صاحب آپ کشمیری قائدین میں سے ایک شخصیت کے حد سے زیادہ مداح اور دوسری شخصیت کے ناقد ہیں۔ مخاطب نے ان کے مداح کے طور پر سید علی گیلانی کا نام لیا اور ہدف تنقید بننے والی شخصیت سردار عبدالقیوم خان کو قرار دیا۔ پھر کہا کہ بلاشبہ علی گیلانی عظیم انسان ہیں لیکن تقوٰی اور پاکیزگی کے لحاظ سے سردار صاحب بھی کسی سے کم نہیں، وہ تو مجاہدِ اول ہیں۔ مشہدی صاحب نے بحث و تکرار کے بجائے قرآنی و نبوی طریقہ اختیار کیا۔ فرمایا آئو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ ان کی دعا کے الفا ظ یہ تھے ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اٰخِرَتَنَا مَعَ الَّذِیْنَ نُحِبُّھُمْ ‘‘ یعنی اے اللہ ہمیں آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ اٹھا، جن سے ہم محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ مشہدی صاحب نے دعا کے دوران عربی الفاظ کا اردو میں ترجمہ کیا تو ان کا مخاطب عجیب مخمصے میں پڑ گیا۔
مشہدی صاحب کی کافی عرصے سے خواہش تھی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اپنے حامی ایم پیز کے ذریعے سید علی گیلانی کو برطانیہ آنے کی دعوت دی جائے۔ ان کا یہ خواب 2007ء میں اس لحاظ سے تو پورا ہو گیا کہ گیلانی صاحب کو پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کی طرف سے برطانیہ مدعو کیا گیا۔ دعوت نامے میں ارکان کمیٹی سے ان کا خطاب اور مسئلہ کشمیر بھی ایجنڈے پر تھا۔ وزٹ کے لیے یہ دعوت دے دی گئی لیکن یہ خواب اس وجہ سے ادھورا رہ گیا کہ بھارتی حکومت نے گیلانی صاحب کا پاسپورٹ پہلے سے ضبط کیا ہوا تھا۔
مشہدی صاحب نے اپنی قیادت میں بہت سی بین الاقوامی سطح کی کشمیر کانفرنسیں منعقد کیں۔ بارہا پارلیمنٹ میں اجلاسوں کے دوران ارکان کو مسئلہ کشمیر پر یادداشتیں پیش کیں۔ وزیر اعظم کی رہائش 10 ڈائوننگ اسٹریٹ جا کر مختلف وزرائے اعظم سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔
4؍ اکتوبر 2008ء کو رات کے وقت برطانیہ سے مولوی محمد اقبال صاحب کا ایس ایم ایس ملا کہ مولانا مشہدی صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ معلوم ہوا کہ چند ہفتے قبل انہیں فالج کا شدید حملہ ہوا تھا، جس سے ان کی دائیں سائیڈ مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ان کی وفات مانچسٹر کے نارتھ جنرل اسپتال میں ہوئی۔
امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر محترم عبد الرشید ترابی مشہدی صاحب کا جنازہ پڑھانے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان سے انگلستان گئے اور 5؍ اکتوبر کو خضرٰی مسجد چیتھم ہل میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ مشہدی صاحب کی زندگی تحریک اور جدو جہد سے عبارت تھی۔ وہ ہمیشہ شہد کی مکھی کی طرح اپنے مقصد کی جستجو اور اپنے مطلوب کی تلاش میں سرگرم و سرگرداں رہے۔ حق مغفرت کرے مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ مشہدی صاحب نے اپنے پیچھے بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشہدی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر آج جن مشکل مراحل سے گزر رہی ہے ان شاء اللہ اس کا انجام کامیابی پر ہوگا۔ مودی درندے نے آخری پتا کھیل لیا ہے۔ اب اس کا مقدر اللہ کے فضل سے ذلت ورسوائی ہے۔