گھاتو گھر نہیں آیا

666

 

 

ایک چیل تیزی سے مشرق کی سمت اڑی جارہی تھی۔ آندھی کے تند تھپیڑوں نے اس کا رخ مغرب کی طرف کردیا۔ وہ مغرب کے رخ بھی اسی رفتار سے اڑنے لگی۔ آندھی نے کہا ’’اوبے خبر تجھے کچھ پتا بھی ہے میں نے تیرا رخ دوسری طرف پھیر دیا ہے‘‘۔ چیل نے کہا ’’کوئی بات نہیں مجھے اس سمت بھی کام ہے‘‘۔ حکومت عمران خان کی ہو یا کسی اور کی کراچی کی سمت کسی کو کوئی کام نہیں ہوتا۔ کراچی کی حالت زار دیکھ کر کسی کا جگر پاش پاش نہیں ہوتا۔
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
کبھی دہلی سے شمع نکلتا تھا۔ فلمی رسالہ۔ پاکستان میں بھی ملتا تھا۔ اس میں معمے ہوا کرتے تھے جنہیں لوگ بڑے شوق سے حل کرتے تھے۔ کراچی ایک ایسا معما ہے جسے حل کرنے پر کوئی تیار نہیں۔ ہر حکومت سمجھتی ہے یہ معما بس اسے الجھانے کے لیے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ان کی کراچی آمد کے سب ہی منتظر تھے۔ امید تھی کہ وہ کراچی کے مسائل پر بات کریں گے۔ متاثرہ لوگوں کی سنیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم اقوام متحدہ جائیں یا کراچی آئیں، وہ تقریر کرنے کے لیے آتے جاتے ہیں۔ اہل کشمیر کرفیو سے مررہے ہوں یا اہل کراچی مسائل سے سسک رہے ہوں ان کے پاس تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے۔ عدم مداخلت۔ کشمیر کو انہوں نے مودی کی صوابدید پر چھوڑ رکھا ہے۔ وہ چاہے کشمیریوں کو کرفیو میں رکھ کر بھوک پیاس سے مارے یا فوجی درندوں کی گولیوں اور بندوقوں سے۔ عمران خان کی حکومت کو دخل اندازی نہیں کرنی۔ کراچی کو وہ صوبائی حکومت کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہاں گندگی کے ڈھیر لگے ہوں، صحت کے مسائل خوفناک صورت اختیار کرچکے ہوں، پانی کی کمیابی شہریوں کا مقدر بن چکی ہو، منصوبے برسوں بعد بھی تکمیل سے محروم ہوں، ٹریفک جام روز کا معمول ہو، صوبائی حکومت جانے اور کراچی کے شہری۔ وفاقی حکومت دخل اندازی نہیں کرے گی۔ ’’کراچی کے مسائل حل کرنا سندھ حکومت کا کام ہے‘‘۔ یہ ہے ان کے دورہ کراچی کا ماحصل۔
کراچی میں ایک کام انہوں نے بھرپور انداز میں کیا۔ یہ ان کا ذاتی کام تھا۔ متحدہ قومی مومنٹ کے رہنمائوں سے ملاقات۔ متحدہ قومی مومنٹ کا بھی یہ ذاتی کام تھا۔ متحدہ کے دفاتر کی واپسی اور لا پتا کارکنوں کی بازیابی۔ پانی، بجلی، گیس، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور کراچی کے شہریوں کے ان گنت مسائل متحدہ کے نزدیک کراچی کے مسائل ہیں اور نہ عمران خان کے نزدیک۔ ایم کیو ایم اب لنگڑی، اندھی، بہری اور گونگی ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم کبھی وہ مگر مچھ تھی شاہ لطیف کی ایک نظم میں جس مگر مچھ کا ذکر ہے۔ ایک چھوٹا سا مچھیروں کا گوٹھ کلانچی۔ وہاں ایک مچھیرا اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ دن بھر سمندر میں مچھلیاں پکڑتے اور شام پڑے گھر لوٹتے۔ کہیں سے سمندر میں ایک مگر مچھ آنکلا اور پھر ایک دن وہ مچھیرا گھاتو گھر نہ لوٹا۔
گھاتو گھر نہیں آیا
شام پڑ گئی اور پھر رات
گھاتو گھر نہیں آیا
بعض بستیاں ہوتی ہی بدنصیب ہیں۔ وہ مچھیروں کا گوٹھ کلانچی ہو یا وسعتیں اختیار کرتا عروس البلاد کراچی، مگر مچھوں سے انہیں نجات نہیں ملتی۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب کراچی میں قتل وغارت کی قوتیں بلا روک ٹوک دندناتی پھرتی تھیں۔ ہر قتل کی ایک شناخت ہوتی تھی۔ ایم کیو ایم کا کارکن تھا حقیقی نے ماردیا۔ حقیقی کا کارکن تھا ایم کیو ایم نے ماردیا۔ شیعہ تھا سپاہ صحابہ نے ماردیا۔ سنی تھا سپاہ محمد نے ماردیا۔ الطاف (بھائی) ہر قتل ہر واردات کا الزام ایجنسیوں پر لگاتے تھے۔ مقتول کے گھر والے ہوں یا جنازے کے شرکاء سب اس بات پر اصرار کرتے تھے اس قتل کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اس قتل کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، اس قتل کا الطاف بھائی سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی قتل کا الطاف بھائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ قدرت الطاف حسین کو بچا کر رکھنا چاہتی تھی۔ نشان عبرت بنانے کے لیے۔
ایم کیو ایم مار کھانے سے ختم ہوئی نہ الطاف بھائی کو کسی نے کچلنے کی کوشش کی۔ یہ مکافات عمل کا شکار ہوئی ہے۔ آج ایم کیو ایم ایک مسخ خاکہ ہے۔ اپنا ہی نوحہ۔ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ اب کراچی پی ٹی آئی کا ہے، پیپلز پارٹی کا ہے لیکن کوئی کراچی کا نہیں ہے۔ یہ شہر آج بھی روگی ہے۔ کراچی معیشت کی شہ رگ ہے، ریاست کو سب سے زیادہ رقم فراہم کرتا ہے، ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، جدید ترین ماڈل کی کاروں، رکشوں کے اژدحام، موٹر سائیکلوں کی یورش، پھٹیچر بسوں اور ویگنوں سے لدا ہوا۔ ٹریفک جام میں رینگتا ہوا۔ ابلتے گٹر، بہتی سڑکیں، دھواں، گرد، مٹی اور دھول میں اٹا ہوا۔ مہنگے ترین ہوٹلوں سے لے کر صابر نہاری اور جاوید نہاری تک سب ہی کا پیٹ بھرتا ہوا۔ کراچی میں سیاسی جماعتیں آتی رہیں جاتی رہیں۔ ان میں فرشتے بھی تھے اور شیطان بھی۔ چور بھی تھے اور صادق اور امین بھی ہیں۔ سب کے دانت کراچی کی رگوں میں گڑے ہوئے ہیں لیکن کراچی کے انتظامات درست کرنے پر کوئی تیار نہیں۔
دنیا نے سوشلزم کو مسترد کردیا۔ دنیا سرمایہ داریت کو دھتکار رہی ہے جو جاتے جاتے دنیا کو طوائف الملوکی اور ابتری میں جھونک دینا چاہتی ہے۔ کراچی بھی اس نظام کا ہدف ہے۔ کراچی نے دو سپر پاورز کی رسہ کشی بھی دیکھی ہے۔ افغانستان میں روس کی آمد کو بھی بھگتا ہے اور جانے کو بھی۔ دہشت گردی کی بے چہرہ جنگ کے دھماکے بھی سہے ہیں اور افغان مجاہدین کی میزبانی بھی کی ہے اور ان کے فنڈز کا بڑا ذریعہ بھی بنی ہے۔ جرائم، تشدد اور جنون کی بوری بند لاشیں بھی دیکھی ہیں اور نشانوں پر لگتی ہوئی گولیاں بھی۔ کراچی کو ایک کوڑے دان کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔
سرمایہ داریت اور جمہوریت نے جہاں دنیا کے خواب چرائے وہاں کراچی کے خواب بھی چرائے ہیں۔ جمہوریت وہ متروک نظام جسے دنیا نے اس کی ابتدا میں ترک کردیا تھا تین چار صدیوں پہلے شیطانی ظلمت کدوں سے برآمد کرکے پھر دنیا پر نافذ کردیا گیا۔ اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے دنیا کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جھونکا گیا۔ برطانیہ ہو یا امریکا جس قابض ملک سے نکلتے ہیں جمہوریت نافذ کرکے نکلتے ہیں تاکہ ان کی جسمانی عدم موجودگی کے باوجود ان ممالک پر حکومت ان ہی کی رہے۔ یہ نظام اپنی ہر جہت میں تقسیم کا نظام ہے جس میں کوئی ذمے داری لینے پر تیار نہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس مسئلہ لے کر جائیے۔ وہ انتہائی توجہ سے مسئلہ سنے گی اور پھر کامل اطمینان سے قرار دیدے گی یہ صوبائی حکومت کا مسئلہ ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس جائیے وہ دل جمعی سے مسئلہ سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے گی یہ بلدیاتی حکومت کی ذمے داری ہے۔ بلدیاتی حکومت کے پاس جائیے وہ کہے گی ٹھیک ہے یہ ہماری ذمے داری ہے لیکن ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ فنڈز دینا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ صوبائی حکومت الزام وفاقی حکومت پر دھر دے گی۔ اس نظام میں ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس نظام میں ایسے ہی چلتا ہے۔ آج عمران خان کہہ گئے کراچی کے مسائل حل کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کل کوئی اور کہے گا۔ ہمیں اپنی بازیافت کی ضرورت ہے۔ ہمیں خلافت راشدہ کے نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں خلیفہ تمام امور کا، ہر مسئلہ کا ذمے دار ہوتا ہے۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں ’’خلافت دین کی حفاظت کی ذمے دار ہے۔ یہی علم وعمل اور رزق کا سبب ہے۔ اسی سے ظلم سے بچائو ہوتا ہے۔ اگر خلافت نہ ہو نمازی نماز پر اور عبادت گزار عبادت پر فائز نہیں ہوں گے نہ ہی عالم علم کی نشر واشاعت کرسکے گا نہ تاجر کا سفر محفوظ ہوگا‘‘۔