’’چاہے کچھ بھی ہو انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔ چاہے آسمان گر جائے لیکن عدالت کو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ہیں جج ارشد حسین بھٹہ کے جو انہوں نے سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو بری کرنے کے فیصلے میں لکھے ہیں۔ اور واقعی انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے لیکن آسمان نہیں گرا۔ لیکن کیا جس جج نے یہ فیصلہ دیا ہے اسے رات کو سکون سے نیند آجائے گی اور کیا کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) کے ان سفاک قاتلوں کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا جنہوں نے چار بے گناہ شہریوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کردیا اور ان مقتولوں میں ایک 13 سال کی بچی بھی تھی۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے زخمی بھی ہوئے۔ لیکن عدالت کے سامنے کوئی ثبوت ہی نہیں اور ارشد بھٹہ نے انصاف کا بھٹا بٹھا دیا۔ عدالتوں کا احترام اپنی جگہ لیکن جن فیصلوں سے دہشت گرد قاتل آناً فاناً رہا کر دیے جائیں ان فیصلوں کا احترام نہیں کیا جاسکتا۔ اب خواہ اس پر توہین عدالت کا اطلاق ہو۔ سانحہ ساہیول اسی سال جنوری میں پیش آیا تھا اور صرف 9 ماہ بعد چار بے گناہ افراد کے قاتلوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ مزید ایسی ہی وارداتیں کریں اور کوئی ثبوت نہ چھوڑیں۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو تو شاید تربیت ہی یہ دی گئی ہے کہ جسے چاہیں دن دہاڑے قتل کردیں، کوئی نہیں پوچھے گا۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ کسی باوردی قاتل کو سزا نہیں ملی خواہ سانحہ ماڈل ٹائون ہو یا وزارت عظمیٰ پر فائز بے نظیر کا بھائی مرتضیٰ بھٹو ہو۔ صرف ایک مثال بے نظیر پارک میں رینجرز کے ہاتھوں بے رحمی سے ایک نوجوان سرفراز کے قتل کی ملتی ہے جس میں مجرم پکڑے گئے۔ وہ بھی اس لیے کہ پورے واقعے کی وڈیو بن کر نشر ہو گئی تھی ورنہ مقتول کو ڈاکو ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔ ایسا ہی کچھ سانحہ ساہیوال میں ہوا اور سی ٹی ڈی کے قاتلوں نے انہیں دہشت گرد قرار دیا۔ انتہائی شرمناک رویہ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کا تھا۔ انہوں نے واردات کے فوراً بعد فرمایا تھا کہ مارے جانے والے سو فیصد دہشت گرد تھے جن کی نگرانی کئی دن سے ہو رہی تھی۔ لیکن ایسے لوگوں کو شرم دلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آج وہی راجا بشارت فرما رہے ہیں کہ مقتولوں کو انصاف ملے گا۔ کون سے مقتول؟ وہ جو دہشت گرد تھے اور ان دہشت گردوں میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ یہ خاندان ایک شادی میں شرکت کرنے جا رہا تھا اور گاڑی ایک پڑوسی ذیشان چلا رہا تھا۔ راجا بشارت اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بیان دیا کہ ذیشان دہشت گرد تھا اور داعش کے ایک خطرناک دہشت گرد سے اس کے تعلقات تھے جس کی نگرانی کی جارہی تھی۔ لیکن سی ٹی ڈی اب تک یہ ثابت نہیں کر سکی کہ ذیشان دہشت گرد تھا۔ اس کی والدہ اپیل کرتی رہیں کہ میرے بیٹے پر سے دہشت گردی کا الزام ہٹایا جائے۔ سی ٹی ڈی کے قاتلوں نے سانحے کے فوراً بعد متضاد بیانات دیے کہ گاڑی کے قریب سے گزرنے والے موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں برسائیں۔ اسے دہشت گردوں سے مقابلہ قرار دیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ کارروائی بچوں کی رہائی کے لیے کی گئی۔ گویا والدین اپنے ہی بچوں کو اغوا کر کے لے جارہے تھے۔ اگر ذیشان دہشت گرد تھا تو گاڑی روکنے کے بعد اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا اور یہ کیسا دہشت گرد تھا جو نہتا تھا۔ چار افراد کو قتل کرنے کے بعد تین بچوں کو گاڑی سے نکال کر ایک ویران جگہ پر چھوڑ دیا گیا۔ بعد میں پولیس کی گاڑی آ کر ان بچوں کو لے گئی۔ کیا جج صاحب کو ان تمام تفصیلات کا علم نہیں جو تمام ذرائع ابلاغ میں آگئی تھیں۔ صرف سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی تضاد بیانی ہی کی پکڑ کی ہوتی تو معاملہ صاف ہو جاتا۔ ان اہلکاروں کو کسی تھانے دار کے حوالے کر دیا جاتا تو وہ خود اپنا جرم قبول کر لیتے لیکن جج صاحب کو شاید بہت جلدی تھی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی دبائو کا شکار تھے لیکن مقتول خلیل کا بھائی جلیل ضرور کسی دبائو کا شکار ہے۔ سانحہ کے بعد اس نے اپنے یتیم بھتیجوں کو ساتھ بٹھا کر جیسی درد ناک کہانی سنائی تھی وہ ریکارڈ پر ہے۔ اس نے مقتولوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا اور انصاف یہ ہے کہ قاتل اپنی سزا کو پہنچیں۔ تاہم جلیل کو 5 کروڑ روپے اور اپنے بھتیجوں کی پرورش کے لیے مل گئے ہیں۔ یہ رقم بچوں پر کتنی خرچ ہوتی ہے اور جلیل کے کتنے کام آتی ہے، اس کے بارے میں اللہ ہی جانے لیکن اپنے بھائی، بھابھی اور ایک بھتیجی کے خون کی قیمت صرف 5 کروڑ روپے! اب وہ کہتا ہے کہ میں فیصلے سے مطمئن ہوں اور ہماری اداروں سے کوئی لڑائی نہیں۔ یعنی ادارے ایسے ہی ڈرامے کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن فیصلہ کیا ہوا۔ ان چار مظلوموں کو کسی نے تو قتل کیا ہے۔ کیا وہ جن بھوت یا خلائی مخلوق تھے کہ واردات کر کے غائب ہو گئے یا انہیں زمین نگل گئی، آسمان کھا گیا۔ جج صاحب نے اپنے اس لا جواب فیصلے میں ہرگز یہ نہیں لکھا کہ اصل قاتلوں کو تلاش کیا جائے۔ لیکن یہ ذمے داری ریاست کی ہے۔ جب یہ سانحہ ہوا تھا تو عمران خان نے قطر سے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مقتولوں کو انصاف دلائیں گے اور واپس آکر پنجاب پولیس کو بھی ٹھیک کریں گے۔ آج مقتولوں کو خوب انصاف ملا اور پنجاب پولیس بھی ٹھیک ہو گئی ہوگی جس نے ایک مخبوط الحواس شخص صلاح الدین کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا اور پھر اس کے والد نے حافظ سعید کے کہنے پر قاتل پولیس اہلکاروں کو معاف کر دیا۔ ایسے معاملات میں معافی کے بعد ریاست کا کردار شروع ہوتا ہے لیکن سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے تو اعتراف جرم ہی نہیں کیا۔ اب عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی۔ لیکن حکومت یہ ضرور معلوم کرے کہ کس کس پر دبائو تھا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ واقعے میں ملوث لوگوں کو نشان عبرت بنا دیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اعلان کیا تھا کہ ان افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اس وقت کے آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا مگر چند دن بعد ہی بحال کر دیا گیا۔ اور عمران خان نے پولیس کی اصلاح کا وعدہ پورا کر دیا۔ مذکورہ فیصلے میں جج صاحب کا کہنا ہے کہ کسی نے ملزموں کو پہچانا ہی نہیں، استغاثہ نے بھی جرم ثابت کرنے میں دلچسپی نہیں لی اور باآسانی ہار مان لی۔ کسی نے گولیاں چلتے ہوئے نہیں دیکھیں۔ لیکن موقع کے گواہ سوائے بچوں کے اور کون تھا۔ بچوں کو چچا نے سمجھا بجھا دیا ہوگا۔ ایک آزاد گواہ ڈاکٹر رانا ندیم تھے جو قتل عام کے موقع پر قریب سے گزر رہے تھے اور ان کی گاڑی مقتولوں کی گاڑی کے پیچھے تھی۔ لیکن جب مدعی ہی پیچھے ہٹ گیا اور گواہ بھی منحرف ہو گئے تو وہ کیا کرتا۔ یوں بھی سی ٹی ڈی کے مقابلے میں کون گواہی دے گا۔ مقتول خاندان کے وکیل فرہاد علی شاہ نے تصدیق کی کہ مقتول کے بھائی کو چھ ماہ پہلے ہی حکومت نے رقم پہنچا دی تھی پھر وہ کیوں مقدمہ لڑتے اور قاتل پکڑے جاتے تو ان کے ہاتھ کیا آتا۔ ان کے لیے 5 کروڑ بڑی رقم ہے۔وڈیو میں جو کچھ نظر آرہا ہے اس کی تحقیق بھی نہیں کی گئی۔ تو ایسے استغاثہ ہی کو برطرف کر دینا چاہیے لیکن مستغیث تو حکومت تھی۔ حکومت بتائے کہ ان مقتولوں کے قاتل کہاں ہیں۔ ایک تازہ مثال بنگلا دیش کی ہے جہاں اس سال اپریل میں ایک لڑکی کو زندہ جلانے پر عدالت نے تیز تر سماعت کر کے صرف 62 دن میں فیصلہ سنا دیا کہ پاکستان کی طرح بنگلا دیش کی عدالت عظمیٰ بھی سزا میں تخفیف کر دے لیکن عدم ثبوت کا جواز پیش نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی عدالتیں عدم ثبوت کی بنا پر بڑی تیزی سے مجرموں کو رہا کر رہی ہیں۔ جج بھٹہ نے بھی یہی کیا ہے۔ لیکن کیا عوام اس فیصلے کو تسلیم کر لیں گے؟