کراچی سے وزیراعظم کی بے رخی

364

کراچی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی عمران خان وزیراعظم بن گئے اس اعتبار سے وزیراعظم کراچی کا ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ نشست کے ساتھ انہوں نے کراچی سے بھی تعلق چھوڑ دیا ہے۔ کئی روز سے شور مچ رہا تھا کہ وزیراعظم کراچی آرہے ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے مطالبات کی فہرست تیار کر رکھی تھی کہ وزیراعظم آرہے ہیں تو ان سے کراچی کے مسائل کے حل کی بات کی جائے گی۔ لیکن وزیراعظم نے تو وہ کام کیا جس کے بارے میں کبھی محاورہ تھا۔ وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔ لیکن وزیراعظم چونکہ تبدیلی کے دعویدار ہیں تو تبدیلی کے ساتھ یوں کیا کہ وہ آیا اس نے دیکھا اور تقریر کرکے نکل گیا… کراچی کے نام نہاد دعویدار اصل نمائندے، تاجر برادری حکومت سندھ سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ وزیراعظم نے فرمایا کہ کراچی کے مسائل حل کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ بلدیاتی نظام شہر کے مسائل حل کرنے میں معاون ہوگا۔ انہوں نے سندھ کے مسائل کا بنیادی سبب کرپشن کو قرار دیا اور کہا کہ کرپشن کی وجہ سے سندھ کے عوام پانی، صحت اور تعلیم سے محروم ہیں۔ پورے دورے میں صرف ایک پارٹی نے ان سے بھرپور ملاقات کی اور اس کے مطالبات بھی انہوں نے بھرپور طریقے سے سنے۔ یہ ملاقات متحدہ قومی موومنٹ کے ایک گروپ کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ملنے والے وفد کے ساتھ ہوئی۔ غالباً وزیراعظم کے دورے کا مقصد بھی یہی تھا۔ ایم کیو ایم سے ملاقات اور بلدیاتی نظام کی جانب اشارہ… وزیراعظم کو اس سے کیا غرض کہ پاکستان کو ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ دینے والا شہر کس حال میں ہے۔ یہاں پانی کیوں نہیں ہے۔ کے فور کے لیے انہوں نے ہدایات دیں، کس کی ذمے داری لگائی… کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور اس شہر کے مسائل بلاشبہ صوبائی حکومت کو حل کرنے چاہییں۔ لیکن کراچی عام معنوں میں ایک شہر نہیں ہے بلکہ درحقیقت ملک کے ہر کونے سے یہاں لوگ آکر بستے ہیں۔ کے پی کے، پنجاب، کشمیر، بلوچستان، گلگت، بلتستان۔ ہر علاقے کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل قائم ہوا ہے اندرون سندھ سے بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد کراچی آرہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ تنہا حکومت، سندھ یا صرف بلدیہ کراچی کا مسئلہ نہیں۔ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے کراچی کو میٹرو پولیٹن اختیارات دینے کا مطالبہ کیا اس کی پاداش میں وفاق نے بلدیہ کراچی کو غوث علیشاہ (اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ) کے ذریعے تڑوا دیا۔ اس مطالبے پر انہیں اور منتخب کونسلرز کو گرفتار کیا۔ پھر جب جنرل پرویز مشرف نے یہی میٹرو پولیٹن اختیار سٹی گورنمنٹ کی صورت میں دیے تو نعمت اللہ خان کے ذمے کراچی آیا بلکہ یوں کہا جائے کہ کراچی کو اللہ کی نعمت ملی اور سٹی گورنمنٹ کا پورا نظام انہوں نے کھڑا کیا لیکن ایک مدت مکمل ہونے پر پھر وفاق نے مداخلت کی اور انتخابی نتائج تبدیل کرکے بھرپور دھاندلی کے ذریعے اپنے منظور نظر ٹولے کو سٹی گورنمنٹ میں لا بٹھایا۔ اب پھر وفاق کی نظر بلدیہ کراچی پر ہے۔ اسی لیے بلدیہ کے معاملے پر ایم کیو ایم سے بات کرکے چلے گئے لیکن ایم کیو ایم نے جو مطالبات کیے ہیں وہ بھی معنی خیز ہیں۔ ان کے مطالبات پانی، بجلی، گیس، سڑکوں اور بلدیہ کراچی کے لیے فنڈز والے نہیں تھے بلکہ وہ تو پارٹی کے دفاتر واپس کرنے اور لاپتا کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہ دونوں مطالبات کراچی آپریشن پر عدم اعتماد بلکہ اب تک فوج اور رینجرز کے تمام اقدامات پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔ ایم کیو ایم کے دفاتر یا تو پارکوں میں بنے ہوئے تھے یا پھر ان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا الزام تھا۔ پارکوں میں قائم دفاتر تو عدالت عظمیٰ کے حکم پر توڑ دیے گئے یا بند پڑے ہیں تو کیا رینجرز اور فوج نے جن دفاتر سے اسلحہ برآمد کیا تھا وہ سب غلط تھا۔ وزیراعظم نے یہ مطالبات کیسے سن لیے انہیں تو فوراً منع کر دینا چاہیے تھا کہ یہ کام ہم نہیں کر سکتے۔ جہاں تک لاپتا کارکنوں کا معاملہ ہے یہ بہرحال قابل غور ہے لیکن اس میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو خود جرائم کا ارتکاب کرکے مفرور ہیں۔ وزیراعظم کراچی آئے تھے تو اس کرپشن کے خاتمے کے اقدامات بھی تجویز کر جاتے۔ سب سے بڑی کرپشن تو انہوں نے یہ کی کہ سندھ حکومت بلدیہ کراچی اور تاجروں میں سے کسی سے ملاقات نہیں کی۔ ان کی نظریں بلدیہ کے آنے والے انتخابات پر ہیں۔ اگر وزیراعظم کے اس رویے پر کوئی احتجاج کرے اور اسے کراچی دشمنی کہے تو اسے مہاجر، ایم کیو ایم اور علاقائی خیالات کا حامل کہیں گے لیکن سرفراز کو کپتانی سے ہٹانے کے فوراً بعد وزیراعظم کا دورۂ کراچی صرف آنیاں جانیاں کے طور پر دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ سرفراز کے معاملے میں تو ایم کیو ایم نے معاملات ہاتھ میں لے کر سرفراز کی کرکٹ سے بھی بے دخلی کا انتظام کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے کراچی کے رہنمائوں نے وزیراعظم کے سامنے احتجاج کیا اور کراچی پیکیج کے 162 ارب روپے جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن وزیراعظم نے کہا ہے کہ گھبرائیں نہیں حکومت کہیں نہیں جارہی… پوری قوم کو یہی شکوہ ہے کہ حکومت تو کہیں بھی نہیں جا رہی۔