سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبیعت بگڑ جانے پر انہیں کوٹ لکھپت جیل سے سروسز اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان کے پلیٹ لیٹس 16 ہزار تک رہ گئے ہیں۔ یہ سیل 20 ہزار سے کم ہوں تو صورتحال خطرناک ہوتی ہے اور جسم کے اندر کہیں سے بھی خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹروں کی رپورٹ ہے لیکن ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے اور اپنا تبصرہ جاری کرنے کی حد زیادہ شوقین ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کسی بھی موقع پر چوکتی نہیں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نواز شریف کی اسپتال منتقلی پر تبصرہ فرمایا کہ دیکھو، یہ بارات جا رہی ہے۔ بیماری کے بہانے سیاست کی جارہی ہے۔ فردوس عاشق سے اسی قسم کے ردعمل کی توقع تھی۔ انہوں نے تو تباہ کن زلزلے پر بھی مذاق فرمایا کہ یہ تبدیلی کی علامت ہے۔ فردوس عاشق اعوان عمران خان کی ترجمان ہیں لہٰذا ان کی ہر بات کو عمران خان کی بات قرار دیا جانا چاہیے۔ وہ بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاتی ہیں اور ایک عام سا ڈاکٹر بھی جانتا ہے کہ پلیٹ لیٹس میں اتنی زیادہ کمی کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ جس وقت نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کینسر جیسے موذی مرض کی وجہ سے لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھیں اس وقت بھی پی ٹی آئی کے رہنما اس کو سیاسی ڈراما قرار دیتے تھے اور کہا جارہا تھا کہ میاں نواز شریف اس بہانے ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ فردوس عاشق کی سابق جماعت پیپلز پارٹی کے ایک’’معقول‘‘ رہنما چودھری اعتزاز احسن بھی کلثوم نواز کی بیماری کی سنگینی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے بلکہ یہ تک کہا تھا کہ وہ جس اسپتال میں داخل ہیں وہاں تو کینسر کا علاج ہی نہیں ہوتا اور یہ اسپتال بھی شریف خاندان کا ہے۔ لیکن بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد اعتزاز احسن نے اپنے ان بیانات پر معذرت کرلی۔ پی ٹی آئی والے اب بھی مصر ہیں کہ نواز شریف کی علالت پر سیاست کی جارہی ہے۔ بیمار تو کوئی بھی ہوسکتا ہے اور اگر دشمن ہو تو بھی اس کے لیے دعا کرنی چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ بیماری کو الٹ بھی سکتا ہے۔ فردوس عاشق کو مشورہ ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنا منہ بند بھی رکھا کریں۔ اس موقع پر ایک سوال یہ بھی ہے کہ جیل میں نواز شریف کو طبی سہولتیں حاصل تھیں تو ان کے پلیٹ لیٹس کم ہونے کا انکشاف پہلے کیوں نہیں ہوا۔ یہ کمی اچانک تو نہیں ہوتی۔ بہرحال، کسی کو بھی اپنے مخالفین کی بیماری اور تکلیف پر سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔