چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے

866

حکومت اپنے خاتمے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ اس کے جھوٹ اور قابل نفرت کردار کو آشکار کرنے کے لیے اپوزیشن کی ضرورت نہیں اس کے اپنے وزرا ہی کافی ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعوی ایک ایسا نعرہ تھا جس کے حقیقت سے بعید ہونے کا سب کو علم تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بہتر تھا کہ اس باب میں سکوت اختیار کیا جاتا لیکن فواد چودھری نے نہ جانے کیوں قوم کو مطلع کرنا ضروری سمجھا کہ حکومت نو کریاں نہیں دے سکتی۔ حکومت پہلے ہی 400محکمے ختم کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی آمد آمد ہے۔ حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ عوام ناقابل برداشت مہنگائی میں پس رہے ہیں۔ حکومت سے متنفر ہی نہیں شدید نفرت کے عالم میں ہیں انہیں مزید مشتعل کرنا!!! یہ وزیر با تدبیر ہیں یاسیاسی مسخرے۔ عمران خان کی حکومت نواز شریف کی کرپشن کی اساس پر وجود میں لائی گئی۔ نواز شریف کے ممدوح بھی سمجھتے تھے کہ وہ کہیں نہ کہیں کرپشن میں ملوث ہیں۔ اگرچہ خود نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے زعما کی طرف سے بڑی سنجیدگی اور وضاحت کے ساتھ صفائیاں دی گئیں۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو نے نواز شریف کی سزا کو ایک افسانہ بنادیا تھا لیکن پھر بھی ابہام موجود تھا۔ نیازی حکومت کے وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر کہ ’’اگر نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت لائن نہ لیتے تو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم ہوتے‘‘۔ عمران خان کے نواز شریف کی کرپشن کے دعووں اور ہماری عدالتوں کی توقیر کو کہیں بہت گہرائی میں دفن کردیا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ ہے نوازشریف کی مبینہ کرپشن اور ان کی حکومت کے خاتمے کی اصلیت۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک ماضی سے نہیں نکل سکے۔ ان کی حکومت ایک ایسی گاڑی کی مانند ہے جس کے ڈرائیور کا رخ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف ہے۔ حکومت کے پہلے تیرہ مہینے میں دس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں جب کہ چالیس لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے دھکیل دیے گئے ہیں۔ معاشی ابتری جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔ عمران خان پر اب کسی کو اعتبار نہیں رہا۔ گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے انہوں نے دس لاکھ نوجوانوں کو بلاسود 100ارب روپے کے قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سو ارب روپے کہاں سے آئیں گے یقینا وہیں سے جہاں سے ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر آئے تھے۔ عمران خان اب غیر حقیقی امیدوں کا استعارہ ہے۔ یہ بہلاوہ اور دھوکا نہیں سفاکی اور وحشیانہ حرکت ہے۔ جیسے درندے شکار سے کھیلتے ہیں۔ مارنے سے پہلے بلی چوہے سے کھیلتی ہے۔ ایسے وعدوں کی حقیقت ذہنی عذاب سے زیادہ کچھ نہیں۔
کامیاب نوجوان اسکیم کے پرفریب قرضوں میں دس ہزار سے ایک لاکھ روپے قرض تک کوئی سود نہیں لیا جائے گا۔ اس سے اوپر رقم پر سود لیا جائے گا۔ عمران خان نے اپنے اس اعلان پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریاست مدینہ کی جانب قدم اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان کو شرم آنی چا ہیے جس سود کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے وہ اس کے فروغ کو ریاست مدینہ کی جانب پیش رفت قراردے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ سے منسوب کررہے ہیں۔ غلط بیانی اور جھوٹ ان کی نس نس میں سماچکا ہے۔ جس شاندار اسکیم کو وہ اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں وہ دراصل نواز شریف کی جاری کردہ اسکیم تھی جو بلاسود قرض اسکیم کے نام سے پیش کی گئی تھی۔
ہمدردی اور امداد باہمی سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت میں نہیں ہے۔ اس نظام میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ دولت غرباء میں بغیر کسی مفاد کے تقسیم کی جاسکے اور حکومتیں غریبوں کی مددگار ہوں۔ اس نظام میں وسائل معاشرے میں تقسیم نہیں ہوتے بلکہ چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ بینک کھولے جائیں، مشترکہ سرمایے کی کمپنیاں قائم کی جائیں، پراویڈنٹ فنڈ جیسی ملازمین کی بہبود کی اسکیمیں ہوں، انشورنس کمپنیاں ہوں، امداد باہمی کے ادارے ہوں یا دیگر فلاحی کام سرمایہ داریت میں تمام معاشی تدبیروں کی روح میں سود جاری وساری رہتا ہے۔ پاکستان کی تمام سول اور فوجی حکومتیں اسی نظام کے تحت کام کرتی رہی ہیں جس میں ممکن ہی نہیں کوئی اسکیم بلاسودی ہو۔ آپ ایسی ایک نہیں ہزار اسکیمیں لے آئیں ملک میں غربت اور افلاس میں اضافہ ہی ہوگا۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کی وسعتیں ہیں کہ سودی قرض کے بغیر گھر بنانا، گھر خریدنا، شادیاں کرنا، کاروبار کرنا کاریں خریدنا تو کجا گھریلو سامان کا حصول بھی مشکل بنادیا گیا۔ عزیز رشتہ داروں سے مالی ہمدردی کے جذبات بھی ماند پڑتے جارہے ہیں۔ بینک میں زیادہ سے زیادہ رقم جمع کرنا، بیمہ اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کو بیش تر لوگ محفوظ مستقبل کی ضمانت سمجھنے لگے ہیں۔ اس نظام میں غریبوں کی مدد بھی کی جاتی ہے تو نمائش کی غرض سے، ذاتی بہبود کی غرض سے، بادل ناخواستہ، ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے۔ سرمایہ داریت میں سود کے بغیر کسی ضرورت مند کو قرض دینا ایک بلاوجہ کا مذہبی دبائو سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس نظام میں بھوکے لوگ ہوں، تڑ پتے ہوئے مریض ہوں یا طرح طرح کے مصائب کا شکار افراد سب روپیہ لگانے اور انوسٹمنٹ کے مقام ہیں۔
مسلمان صدیوں دنیا کو سود کے بغیر چلاتے رہے۔ معیشت بھی چلتی رہی اور ایک عام آدمی کے مسائل بھی حل ہوتے رہے۔ کبھی کسی مسلمان کا جنازہ یا اس کے بچوں کی شادی اس لیے نہیں رکی کہ اسے بلا سودی قرضہ نہیں ملا۔ مسلمانوں کی تجارت، صنعت وحرفت اس لیے نہیں بیٹھی، کساد بازاری کا شکار نہیں ہوئی کہ سودکے بغیر رقوم دستیاب نہیں ہوسکیں حتی کہ کبھی جہاد بھی اس لیے نہیں رکا کہ سرمایہ موجود نہیں تھا۔ آج مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پاک آرمی کو پکار رہے ہیں ان کی مدد نہ کرنے کے جو ان گنت لنگڑے جواز تراشے جارہے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جنگ ایک مہنگا سودا ہے ہماری معیشت جس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جہاں ذاتی اغراض ہی سب کچھ ہوتی ہیں۔ ایک کی ضرورت دوسرے کے لیے نفع رسانی کا باعث بنتی ہے جب کہ اسلام سود سے پاک ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جہاں ہمدردی ہو، فیاضی اور فراغ دلی ہو۔ جس میں مال دار لوگ غریبوں سے ہمدردی کا معاملہ کریں، مالی تعاون اور لین دین کی کوئی بھی صورت ہو تو منصفانہ ہو خیر خواہی پر مبنی ہو۔
عمران خان کی حکومت میں ایک طرف پاکستان کی جنگ کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے، ملک کا دفاع کمزور ہوا ہے تو دوسری طرف ملک کی معاشی حالت ابتری کی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ ان کے اقتدار سنبھالتے ہی تجاوزات کے نام پر غریب بے گھر اور بے روزگار ہونا شروع ہوگئے۔ غریبوں کے گھر چولھا جلنا مشکل ہو گیا۔ اس موقع پر لوگوں کی داد رسی کرنے کے بجائے وہ انڈوں، مرغیوں اور کٹوں کے مذاق پر اتر آئے۔ جب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ وہ ایک الم ناک حادثے کا شکار ہوچکے ہیں تب انہوں نے لنگر خانوں کے تماشے شروع کردیے۔ جب یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا کہ لنگر خانے ان کا نہیں سیلانی والوں کا کمال ہے تو کھلاڑیوں، مداریوں اور مسخروں کی طرح انہوں نے سو ارب روپے کے نئے کھیل کا آغاز کردیا۔ یہ خواب بھی چوری شدہ ہے۔ نواز شریف کی ایک اسکیم کا چربہ۔ عمران خان کچھ نہ کریں۔ اپنی پٹاری سے چوری شدہ منصوبے برآمد کریں نہ لنگر خانے کھو لیں نہ قرضوں کا اجرا کریں بس اتنا رحم کریں کہ لوگوں کو کاروبارر جو وہ پہلے سے کررہے ہیں انہیں وہ کاروبار کرنے دیں۔