لنگر کھانے کا نہیں جہاد کرنے کا وقت ہے

618

 

 

 

قلعہ سرنگاپٹم ہے۔ اِس میں موجود محل کے ایک کمرے میں دستر خوان بچھا ہے جس پر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپور دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ نوالہ منہ کی طرف لے جانے کے لیے ہاتھ میں اٹھایا ہی تھا کہ وفادار کمانڈر اچانک کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا، سلطان غداری ہوچکی ہے، میر صادق نے اپنا کام کر دکھایا۔ انگریز فوج قلعہ کے قریب پہنچ چکی ہے، آپ کو سُرنگ سے نکال لے جانے کے لیے گھوڑا تیار ہے، کمانڈر جب بات کررہا تھا تو سلطان نوالے کو ہاتھ میں لیے کماندڑ کی بات توجہ سے سنتا رہا، جوں ہی کلام ختم ہوا سلطان نے ہاتھ کا نوالہ منہ کی طرف لے جانے کے بجائے واپس دسترخوان پر رکھتے ہوئے بے ساختہ کہا کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ سلطان نے یہ الفاظ یہ سوچ کر نہیں کہے کہ یہ آگے چل کر کتابوں کا عنوان بنیں گے اور فوجی چھائونیوں کے دروازوں پر لکھے جائیں گے بلکہ سلطان کو یہ الفاظ کہنے اور نوالہ دسترخوان پر رکھنے کے لیے اُس کی غیرت ایمانی نے مجبور کیا۔ سلطان تلوار لے کر باہر نکلا، غازی یا شہید کی اس جنگ میں سلطان کے ساتھی بھی ٹوٹ پڑے۔ جب تک سانس میں سانس تھا تو سلطان کے ساتھی خون کے فواروں اور نعرہ تکبیر کی گونج میں اسلامی تاریخ کے ایک یادگار باب کو رقم کرتے رہے۔ جب لاشوں سے میدان اٹ گیا اور موت کا رقص مکمل ہوا تو انگریز سلطان کی لاش کو تلاش کرنے لگا۔ جانثاروں کی لاشوں کے ایک ڈھیر کو جب ہٹایا گیا تو سلطان نظر آیا۔ شیر زخمی تھا اور سانس ابھی چل رہی تھی، انگریز جنرل آگے جھکا اور سلطان کے بیلٹ کو پکڑ کر کھینچا۔ مجاہد کی آنکھ کھل گئی، دیکھا سامنے انگریز ہے، زخمی سلطان نے تلوار کا وار اس زور سے کیا کہ انگریز اگر رائفل کا بٹ سامنے نہ کرتا تو سر سے پائوں تک دو ٹکڑے ہوجاتا تاہم تلوار بٹ پر اتنے زور سے لگی کہ ٹوٹ گئی۔
سلطان کی بہادری سے دشمن اس قدر متاثر ہوا کہ لاش کو محل میں لے جانے کی اجازت دی گئی۔ عصر کے وقت جنازہ تیار ہوا اور قبرستان لایا گیا، تدفین کے بعد یہ حیران کن اعزاز ہندوستان کی سرزمین پر صرف اور صرف ٹیپو سلطان شہید ہی کو حاصل ہے کہ انگریز فوجی دستے نے سلطان شہید کی قبر کو سلامی دی جو اس سے پہلے یا بعد میں کسی دشمن نے کسی دشمن کو نہیں دی۔ بہادری اور شجاعت کا یہ وہ ایوارڈ تھا جو دشمن بھی دینے پر مجبور ہوگیا۔ وزیراعظم عمران خان جو اکثر ٹیپو سلطان کا ذکر کرتے اور انہیں اپنا آئیڈیل کہتے رہتے ہیں، اُن کی سلطان شہید سے جذباتی وابستگی یقیناا ان کی غیرت ایمانی، بہادری اور شوق شہادت کی علامت ہے تاہم یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ کب کس کو موقع ملے اور وہ میدان جہاد میں اُترے کہ جہاں غازی یا شہید کا مرتبہ و مقام اُس کا انتظار کررہا ہو۔ بہت سے سپاہی، مجاہد، جرنیل اور حکمران جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار ہونے کے باوجود ’’میدان جہاد‘‘ کو دیکھ تک نہیں پاتے، البتہ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کی زندگیوں میں وہ موقع آجائے کہ جب ’’جہاد‘‘ فرض اور ’’شہادت‘‘ منزل بن جائے۔ کچھ لوگ موت کا انتظار یا موت کا مقابلہ کرتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو موت کا تعاقب کرتے ہیں اور موت اُن سے دور بھاگتی ہے۔ خالد بن ولیدؓ، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد فاتح، سلطان محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان ایسے ہی لوگ تھے جن کا سامنا کرتے ہوئے موت بھی گھبراتی تھی۔ ایمان کی ایسی کیفیت درحقیقت غیرت اور یقین سے تعلق رکھتی ہے، اللہ سے ملاقات کا یقین اور انتظار ہو جب کہ غیرت ایک پل بھی چین نہ لینے دے کہ جب مظلوم مسلمان عورتوں اور بچوں کی چیخیں آرہی ہوں۔ وہ اللہ سے فریاد کررہے ہوں کہ باطل قوتوں نے ہمیں اپنا غلام بنالیا ہے۔ ہمارا عقیدہ اور ہماری آبرو ہم سے چھینی جارہی ہے۔ مدد فرما کہ ہماری جان اور آزادی محفوظ رہے۔ مظلوموں کی چیخ و پکار سن کر سوجانا یا یہ کہ کفار کے پاس مسلمان قیدیوں کے بھوکے اور پیاسے ہونے کی اطلاعات مل جانے کے بعد بھی لنگر چاٹتے رہنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔
8 اکتوبر 2019ء کے اخبارات میں خبر دیکھی کہ وزیراعظم عمران خان پہلے ’’لنگر پروگرام‘‘ کا افتتاح کررہے ہیں جب کہ اِسی خبر کی تصویر میں وہ چند لوگوں کے ساتھ لنگر کھا کر دُعا مانگ رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، لنگر بانٹنا اور دعا مانگنا، یقینا نیکی ہے، ہم اِس نیکی کی قبولیت کے لیے دعاگو ہیں تاہم وزیراعظم عمران خان کے لنگر کھانے کی تصویر کو دیکھتے ہی ہمیں وہ خبر اور واقعہ بھی یاد آگیا جس کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ دشمن کو دروازے پر دیکھ کر نوالہ منہ میں لے جانے کے بجائے دستر خوان پر رکھتے ہوئے فرمایا گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے اور پھر تلوار لے کر گھوڑے پر یوں سوار ہوئے کہ میدان جہاد سے واپس گھوڑے پر آنے کے بجائے قبر میں اُتر گئے۔ ایسے ہی مجاہدوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘۔ ٹیپو سلطان شہید کی شہادت اور الفاظ کو یاد کرتے ہوئے ہمیں مظلوم
کشمیری مسلمانوں کی وہ خبریں اور تصویریں بھی یاد آنے لگیں جنہیں بھارتی فوج نے 72 برس سے سنگین کی نوک پر غلام بنا رکھا ہے اور اب گزشتہ 2 ماہ سے انہیں تختہ مشق بنالیا گیا ہے۔ گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں، اسکولوں، اسپتالوں اور مسجدوں کے دروازے بند ہوچکے، روزگار، ادویات اور خوراک ختم ہورہی ہیں، شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں۔ مسلمانوں کی جوان بیٹیاں بھارتی فوجی کیمپوں میں خودکشیاں کررہی ہیں، معصوم بچے اپنی مائوں کے سینوں پر دودھ پیتے پیتے خون میں لت پت ہو کر ہمیشہ کے لیے سو گئے ہیں، بوڑھے مدد سے قاصر ہوں اور نوجوان لاپتا کیے جارہے ہوں، پاکستان کی شہ رگ (مقبوضہ کشمیر) کو آزاد کرانے والے کشمیری مسلمانوں کی زندگی کی رگ کو ہر روز کاٹا جارہا ہو، تو ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ وقت لنگر کھانے کا نہیں جہاد کرنے کا ہے، فوجی پیش قدمی کی ضرورت ہے، وزیراعظم عمران خان کی تصویر لنگر کھانے کے بجائے ایف 16، تھنڈر اور میراج کے پائلٹوں کے ساتھ آنی چاہیے تھی۔ ٹینک رجمنٹ کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا جانا چاہیے، میزائلوں کا رُخ درست سمت کرتے ہوئے نظر آنا چاہیے، کنٹرول لائن کو عبور کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دینے کی تاریخ کا حتمی اعلان ہونا چاہیے تھا۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوا یا ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں تو پھر ٹیپو سلطان کا ذکر نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس طرح سے شہید سلطان کی روح کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی، البتہ اس طرح وزیراعظم عمران خان کو ہم یہ اجازت ضرور دیں گے کہ وہ لنگر بھی بڑے شوق سے کھائیں اور پہلی فرصت میں جنرل نیازی کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھا آئیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں لنگر چاٹنے سے پہلے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ’’جہاد‘‘ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین