محب اسلام اور محب وطن پاکستانیوں پر وحشیانہ مظالم
اس کے بعد محب اسلام اور محب وطن پاکستانیوں پر بالعموم اور جماعت اسلامی اور اس کے ساتھیوں پر بالخصوص جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے وہ انتہائی دردناک اور روح فرسا تھے۔ یہ وحشیانہ مظالم اتنے تکلیف دہ اور اذیت رساں تھے کہ قلم ان داستانوں کو لکھتے ہوئے لرزتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے تقریباً دس ہزارکارکن اور حمایتیوں کو اذیتیں دے دے کر شہید کیا گیا۔ دس اور بارہ ہزار کے درمیان جیلوں میں ڈالے گئے۔ ہزارہا اپنے گھربار اور بے سہارا بیوی بچوں کو خدا کے سپرد کرکے روپوش ہونے پر مجبور ہوئے۔ بہت سے اس جہنم سے نکل کر پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہوئے۔ ایک مختصر تعداد نیپال کے ذریعے مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ بدترین حالات میں مشرقی پاکستان کے اراکین‘ کارکنان‘ ہمدردوں اور حامیوں نے جس صبر و استقامت‘ جواں مردی اور جرات کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ وہ تحریک اسلامی کی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
بھٹو کو اقتدار کی منتقلی
۲۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خاں نے اقتدار سونپ دیا اور انہوں نے تاریخ کے پہلے غیر فوجی (سویلین) چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر‘ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے اور ملک کو مزید مصائب سے بچانے کی خاطر‘ بھٹو صاحب کی ساری خرابیوں‘ اور ان سے تمام اختلافات کے باوجود‘ امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ: وہ ملک کی عزت و وقار اور اس کے وجود کو بچانے کے لیے مسٹر بھٹو سے تعاون کریں گے اور غلط کام پر ان پر تنقید بھی کریں گے۔
حمود الرحمن کمیشن
۲۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کو وفاقی حکومت نے پاکستان کے چیف جسٹس حمود الرحمن‘ جسٹس انوار الحق اور جسٹس عبد الرحمن پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا تاکہ مشرقی پاکستان میں افواج کے ہتھیار ڈالنے کے اسباب معلوم کیے جاسکیں۔ لیکن اس کمیشن کا دائرہ اختیار اور دائرہ عمل انتہائی محدود رکھا گیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے سیاسی عوامل اور اس کے ذمے داروں اور مجرموں کو نہ تو قصوروار ٹھیرایا گیا اور نہ ان کو سزائیں دی گئیں۔
قیم جماعت میاں طفیل محمد اور پروفیسر غلام اعظم ۲۸؍ مارچ ۱۹۷۲ء کو کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور مفصل تحریری بیان دیے اور مزید زبانی سوالات کے بھی جوابات کمیشن کے روبرو دیے۔ پورے ملک کے ہمہ گیر مطالبوں کے باوجود برسوں اس کمیشن کی رپورٹ شائع نہ کی گئی اور نہ ان غداروں سے بازپرس کی گئی اور نہ انہیں قرار واقعی سزائیں دی گئیں‘ جن کے سبب یہ المیہ وقوع پزیر ہوا۔
کمیشن نے سقوط ڈھاکا کی ذمے داری کے تعین اور اس کی وجوہات کی تحقیقات کے بعد حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن نے دو جلدوں اور ۶۷۵ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی تھی جسے حکومت پاکستان نے خفیہ رکھا۔
سقوط ڈھاکا کے ذمے داران کو سزا یابی و بحالی جمہوریت کی مہم
۱۵؍ جنوری ۱۹۷۲ء کو جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر میاں طفیل محمد نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ: جلد سے جلد قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اس میں ملک کے لیے عبوری دستور بنایا جائے اور مارشل لا کو ختم کرکے ملک میں جمہوری عمل بحال کیا جائے۔ پوری قوم سقوط مشرقی پاکستان کے المیے سے انتہائی رنج و غم اور سکتے کے عالم میں تھی اور ساری قوم‘ ان سازشوں اور غداریوں کو بے نقاب کرنے کے لیے بے چین تھی‘ تاکہ اس المیے کے اسباب ذمے داروں کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جاسکے۔
جماعت اسلامی نے فروری ۱۹۷۲ء کے آخر میں مارشل لاہٹانے کی مہم شروع کی تھی اور پورے ملک میں جلسے کیے۔ دوسری جماعتوں نے بھی یہ مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں بھٹو صاحب نے اپریل کے تیسرے ہفتے میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور مارشل لاہٹاکر ایک عبوری دستور نافذ کیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے ذمے دار
حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سقوط مشرقی پاکستان کی ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو اور فوج کے جرنیلوں پر ڈالتے ہوئے ۱۳ فوجی جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی تھی ان میں جرنل یحییٰ خان‘ جنرل عبد الحمید خان‘ جنرل نیازی‘ جنرل پیرزادہ‘ جنرل عمر‘ جنرل گل حسن‘ جنرل مٹھا‘ جنرل ارشاد‘ جنرل عابد زاہد‘ میجر جنرل بی۔ ایم۔ مصطفیٰ‘ جنرل رحیم اور بحریہ کے کمانڈر گل زریں شامل تھے۔
(جاری ہے)