رنڈاپے کے دن

758

پاکستان کی خارجہ پالیسی جس ہوس اور حوصلے سے خراب کی گئی ہے اس کے بعد رنڈاپے کے یہ دن تو دیکھنے ہی تھے:
کوئی رستہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 19ستمبر کو بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا تھی۔ قرارداد کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال پر کونسل کا اجلاس بلانا تھا۔ قرارداد کو پیش کرنے کے لیے پاکستان کو سلامتی کونسل کے 47اراکین میں سے صرف 16کی حمایت درکار تھی۔ یہ ایک آسان ہدف تھا لیکن ہماری وزارت خارجہ کو اس وقت پسپائی کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستانی موقف کی تائید کے لیے اسے اتنے ارکان کی تائید بھی حاصل نہ ہوسکی۔ پاکستان یہ قرارداد پیش نہ کرسکا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ میں 58ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ وزیر خارجہ گدی نشین ہیں جھوٹ اور غلط بیانی! توبہ توبہ۔ ممکن ہے اس سمے متعلقہ ممالک کا موڈ خراب ہو یا انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم سے یوٹرن لینا سیکھ لیا ہو۔ حکومت کے بد خواہ الزام لگا رہے ہیں کہ قریشی کا کشمیر کو بھارتی صوبہ قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ کشمیر مودی کو دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی اس بات کا اہتما م کیا گیا ہے کہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھانا ہے۔ بس جذباتی تقریروں کی دھونی سے کام چلانا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرا مینم جے شنکر نے پچھلے ڈیڑھ ماہ میں کم ازکم چودہ ملکوں کا دورہ کیا ہے۔ ان میں چین، بنگلا دیش، بھوٹان، انڈونیشیا، جاپان، فن لینڈ، پو لینڈ، ہنگری، روس برطانیہ، امریکا اور کئی افریقی ممالک شامل ہیں۔ شنکر پورے ایک مہینے سے انڈیا سے باہر ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے انڈیا کے اوسان خطا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ زیادہ چلت پھرت دکھاتے ہیں تو سعودی عرب اور دبئی کا چکر لگا آتے ہیں۔ پاکستان اگر قرار داد پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو جہاد کے بجائے بذریعہ اقوام متحدہ بھارت سے بدلہ لینے کی یہ ایک کامیاب کوشش ثابت ہوتی۔
وزیراعظم عمران احمد خان نیازی اپنی بات کی سچائی اور موقف پر کامل یقین رکھتے ہیں اتنا کہ سابقہ موقف دل پر ہزار خرابی لائے اس سے پہلے وہ یوٹرنز سے رد بلا کا کام لے لیتے ہیں۔ وزیراعظم کی ایک بے محابا اور خداداد خوبی دیوار کے پار جھانکنے کی صلاحیت ہے۔ بھارتی الیکشن کے موقع پر انہوں نے کہا تھا مودی کامیاب ہوگئے تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ دیکھ لیجیے اِدھر مودی کامیاب ہوا اُدھر مسئلہ کشمیر حل ہونے کے لیے کشاں کشاں چل کر اس کے پاس آگیا۔ مودی نے اس معاملے کو اس خوبی سے حل کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کروانا تو ایک طرف اس سے کرفیو اٹھوانا مشکل ہورہا ہے۔ وزیراعظم نے دوسری پیش گوئی یہ کی تھی کہ مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ ہی حل کر واسکتے ہیں۔ ان کا اشارہ صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی طرف تھا۔ صدر ٹرمپ نے ہیوسٹن میں مودی کے جلسے میں شرکت کرکے اور یہ کہہ کر کہ مجھ سے زیادہ بھارت دوست امریکی صدر نہیں ہوگا امریکا ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ عمران خان کی یہ پیش گوئی بھی باکمال پوری کردی ہے۔ صدر ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے تارکین وطن کے کسی جلسے میں شرکت کی ہے۔ ثالثی کے آئٹم کو اس سے زیادہ ہلکے پھلکے انداز میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔
جب مودی بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا فاتحانہ انداز میں ذکر کر رہا تھا صدر ٹرمپ تالیاں بجارہے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کو ٹرمپ سے منصفانہ ثالثی کی توقع ہے تو اسے چاہیے کہ مضبوط ساخت کے جوتے سے اپنے سر کی چھترول کرے۔ مودی ٹرمپ سے زیادہ بھاری بھرکم، اٹل اور پر شور لہجے میں بات کررہا تھا۔ وہ اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتا چلے جارہا ہے۔ 80لاکھ انسانوں کو مردوں سے بدتر جینے پر مجبور کرنے کے باوجود یہ درندہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سمیت دنیا سے داد سمیٹ رہا ہے۔ اس نے کشمیر ہڑپ کر لیا اور کوئی اس کا بال بیکا نہ کرسکا۔
پچاس دن ہوگئے ہیں اہل کشمیر کرفیو کی قید میں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے وہ اپنا اثر رسوخ استعما ل کرکے کشمیر سے کرفیو اٹھوائیں۔ مودی نے امریکا کو چند تجارتی سہولتیں دے کر عملی طور پر کشمیر سے لا تعلق کردیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں امریکا اور بھارت کے درمیان نیا تجارتی معاہدہ سامنے آجائے گا۔ مودی نے اس معاہدے میں ٹرمپ کے کئی ایسے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں جو آج تک دونوں ممالک کے درمیان تلخی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی وجہ سے امریکا کی وہ مصنوعات جو بیجنگ نہیں خرید رہا وہ سب بھارت خرید لے گا۔ امریکی کسان جو صدر ٹرمپ سے ناراض ہیں اب وہ انہیں ایک نئی منڈی میں مال کی کھپت کی خوش خبری سنا سکیں گے۔ اتنے بڑے فائدے کے مقابل اہل کشمیر کی عملی حمایت!!! صدر ٹرمپ بائولے بھی ہوجائیں تو ایسا نہ کریں۔ دوسری طرف افغانستان میں کامیابی کے لیے انہوں نے عمران خان کو بھی باتوں کے استرے سے اچھی طرح مونڈ دیا۔
حا لات بے حد سنگین ہیں خود وزیراعظم عمران خان اعتراف کر چکے ہیں کہ جن سنگین مسائل سے نبرد آزما ہوں میری جگہ کوئی اور ہوتا تو ہارٹ اٹیک ہوجاتا۔ واقعتا پاکستان کے حالات اتنے ہی سنگین ہو چکے ہیں۔ ہم کسی کاشکار نہیں خود اپنا شکار ہیں۔ ہم اندر سے ٹوٹ رہے ہیں۔ کابینہ کو اجلاسوں میں کوئی واحد مسئلہ نظرآتا ہے تو وہ میڈیا کو زنجیر کرنا ہے۔ اپوزیشن کے ایک ایک فرد کو پکڑ پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینا پاکستان کی ترقی کا واحد راستہ سمجھا جارہا ہے۔ اس حکمت نے نظام کے تنبو اور قناتوں کو اس طرح سر پر اٹھا رکھا ہے کہ ہر چیزگرتی پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہیں۔ کاروباری لوگ ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں۔ بیورو کریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، خوف زدہ کہ نہ جانے کس فائل پر دستخط کرنے، کام آگے بڑھانے کی پاداش میں نیب کی گرفت میں آجائیں۔ مودی بارہا کہہ چکا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا پاکستان میں کس سے بات کی جائے۔ وزیراعظم سے، آئی ایس آئی کے سربراہ سے یا آرمی چیف سے۔ مودی کی یہ بات حقیقت ہے۔ آج پتا ہی نہیں چل رہا ہے پاکستان میں حکومت کون چلا رہا ہے۔ حالات کی درستی کے لیے کس سے بات کی جائے۔
صدر ٹرمپ اور مودی نے جس طرح اسلام کا ذکر کیا ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ انہیں کسی چیز سے خوف ہے تو وہ اسلام ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دوصدیوں کی مربوط کوششوں، عرصہ حیات تنگ کرنے، تاریخ کی خوفناک ترین جنگیں لڑنے، تباہ اور برباد کرنے کے بعد مغرب مسلمانوں کو مکمل طور پر مغلوب، بے دست وپا اور محتاج کرچکا ہے لیکن اسلام!!! اسلام کا معاملہ دیگر ہے۔ اسلام آج بھی مغرب کے مقابل پورے قد اور توانائی سے کھڑا ہے اس چیلنج کے ساتھ کہ ’’جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے‘‘۔ سرمایہ داریت سے لے کر جدید تہذیب تک اسلام مغرب کے ہر نظریے کو خاک چاٹنے پر مجبور کررہا ہے۔ اسلام محض عقاید کا مجموعہ نہیں ہے نہ یہ صرف روحانی پا کیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ انسانوں کی فلاح وبہبود کی کوئی تنظیم ہے اور نہ کسی تہذیب کا نشان ہے۔ اسلام ایک وسیع اور پیوستہ وحدت ہے جو ایک عادلانہ نظام معیشت، متوازن معاشرتی نظام، دیوانی، فوجداری اور بین الاقوامی قوانین، فلسفہ حیات اور انسانی تربیت کا جامع نظام ہے۔ رسالت مآبؐ کے عہد سے لے کر 1924 تک خلافت کی صورت انسانوں نے اس نظام کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس کی افادیت کو برتا اور دیکھا ہے۔ ماضی حال اور مستقبل ہر عہد میں اسلام ایک زندہ توانا اور پھلنے پھولنے والانظام ہے۔ سوشلزم اور اشتراکیت اس کی تازگی کا مقابلہ کرتے کرتے فرسودہ ہو گئے۔ اب سرمایہ داریت نئی کامرانیاں سمیٹنا تو درکنار اسلام کی توانائیوں اور قد کاٹھ کے مقابل ایک ناٹے بونے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہی۔