زرعی شعبہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے غربت و بیروزگاری کم ہوگی

504

جی ڈی پی کے 19.2 فیصد پر مشتمل شعبہ سے دو ارب ٹیکس وصولی مذاق ہے۔

 

سیاستدان عوام کی خدمت کا دم بھرتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔میاں زاہد حسین

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مےن اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زرعی شعبہ کو ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر ملکی ترقی خواب رہے گی۔جی ڈی پی کے 19.2 فیصد پر مشتمل زرعی شعبہ سے ٹیکس وصول کرنے کی ذمہ داری ایف بی آر کے سپرد کرنے سے 5.5 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے

صنعت ،تجارت، خدمات، ٹیلی کام اور دیگر شعبوں پر ٹیکس کا بھاری بوجھ کم کیا جا سکتا ہے جس سے مہنگائی و بیروزگاری اور غربت میں کمی ہوگی ،ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے اس پر غو رکیا جائے۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ جی ڈی پی میں صنعتی شعبہ کا حجم 21فیصد اور اس پر ٹیکسوں کا بوجھ 70 فیصد ہے، خدمات کا حجم60 فیصد، ٹیکس کا بوجھ تقریباً 30 فیصد جبکہ زرعی شعبہ پر ٹیکس کا بوجھ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ٹیکس کے نظام میں برابری نہ ہونے کے سبب ملک میں صنعتکاری کا عمل متاثر ہو رہا ہے اور تا جرملک گیر احتجاج کر رہے ہی

ں۔انھوں نے کہا کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کئے بغیر ٹیکس کا نظام کبھی متوازن نہیں ہو سکتا۔صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں زرعی پس منظر رکھنے والوں کی اکثریت ہے جو عوام کی خدمات کا دم بھرتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اگر انھیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے تو پھر آئینی ترامیم کے ذریعے زرعی آمدنی پر ٹیکس کا حصول وفاق کے سپرد کر دینا چائیے تاکہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو اور یہ شعبہ جو مسلسل کمزور ہو رہا ہے ترقی کر سکے۔انھوں نے کہاکہ صوبے گزشتہ کئی دہائیوں میں مناسب ٹیکس اکٹھاکر سکے اور نہ مستقبل میں کریں گے۔

صوبے زرعی آمدنی کے بجائے رقبے کے حجم کے حساب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں جو مجموعی طور پر دو ارب روپے ہوتا ہے جس میں پنجاب سے 1.28 ارب روپے وصول کیا جاتا ہے، سندھ سے صرف650 ملین روپے، خیبر پختونخواہ سے 88 ملین روپے جبکہ بلوچستان سے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے وصول ہوتے ہیں جو کہ ایک مذاق ہے۔موجودہ جدید دور میں زرعی آمدنی کے بجائے رقبہ پر ٹیکس کی وصولی حیران کن ہے جبکہ صوبے کسی قیمت پر قوانین میں تبدیلی بھی نہیں چاہتے۔صوبائی ٹیکس اتھارٹیزسیلز ٹیکس وصول کرنے میں فعال مگر زرعی ٹیکس وصول کرنے میں سست ہیں جسکی وجہ سیاستدانوں کا اثر ورسوخ ہے جسکی قیمت غریب عوام ادا کرتی ہے۔اگر زرعی شعبہ سے ٹیکس لیا جائے تو سماجی شعبہ ترقی کرے گا جس سے عوام کی حالت بہتر ہو جائے گی۔