نمرتا ہلاکت کیس،لاڑکانہ کے جج کا انکوائری سے صاف انکار

143

لاڑکانہ (خبر ایجنسیاں) پولیس کی حراست میں موجود نمرتا کے دوست مہران ابڑو نے کہا ہے کہ اس نے نمرتا کو شادی سے انکار اس لیے کیا کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ مہران ابڑو نے پولیس کو بتایا ہے کہ اگر میں نمرتا سے شادی کر لیتا تو رشتہ دار زندہ نہ رہنے دیتے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ شادی کی صورت میں پولیس نمرتا کو بازیاب کروا لیتی اور اس کے والدین اسے باہر بھیج دیتے اور مجھے 14 سال سزا ہوجاتی یوں نمرتا سے شادی کے بعد میرا اور میرے خاندان کا مسقبل تباہ ہوجاتا۔آصفہ ڈینٹل کالج کے طالب علم اور نمرتا کے دوست مہران نے کہا ہے کہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کئی بار نمرتا اور اس کے گھر والوں کو بتا چکا تھا جب کہ میرے والدین بھی شادی کے حق میں نہیں تھے۔ دوسری جانب نمرتا ہلاکت کیس میں پولیس تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچی، نمرتا نے خودکشی کی یا انہیں قتل کیا،تحقیقاتی ادارے اس بات کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں۔اسی حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ کے آصفہ ڈینٹل کالج کی فائنل ائیر کی طالبہ نمرتا چندانی کی پراسرار ہلاکت کے معاملے پر مقتولہ کے بھائی نے مقدمہ درج کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈاکٹر وشال کا کہنا تھا کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ آنے سے قبل ایف آئی آر درج نہیں کرائیں گے۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نمرتا چندانی کے بھائی ڈاکٹر وشال اپنے چچا اور ماموں کے ساتھ ایس ایس پی مسعود بنگش کے آفس پہنچے۔ڈاکٹر وشال نے پولیس کو بیان دیا کہ جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ آنے سے پہلے نمرتا کے قتل یا خودکشی کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں چاہتے۔ ایس ایس پی مسعود بنگش نے کہا کہ ورثاء کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کروانے سے متعلق آئی جی سندھ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔جب کہ دوسری جانب لاڑکانہ میں آصفہ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتاکی پراسرار موت کے واقعہ میں نیا موڑ آگیا۔تفتیشی حکام کے مطابق نمرتا کیس میں گرفتار ملزم مہران ابڑونے بتایاکہ میں اور نمرتا ایک دوسرے کی محبت میں گرفتارتھے اور دونوں شادی کرنا چاہتے تھے، نمرتا کماری اور مہران ابڑو کی شادی میں مہران ابڑو کی والدہ افروز رکاوٹ بنی ہوئی تھی،والدہ افروز نے ایک ماہ قبل نمرتا کماری کو رشتے سے انکار کردیا تھا۔ رشتے سے انکار کے بعد نمرتا کماری ذہنی دبائو کا شکار ہوگئی اور علاج کرانے لگی تھی۔ وزارت داخلہ سندھ کی درخواست کے باوجود لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نمرتا چندانی کی پراسرار موت کی جوڈیشل انکوائری کرانے سے گریزاں ہیں۔ضلعی پولیس میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اتوار کی شام سیکرٹری داخلہ عبدالکبیر قاضی کو بیرونِ ملک جاتے ہوئے پولیس نے سیشن جج کی جانب سے انکوائری کا آغاز کرنے سے گریز کے بارے میں آگاہ کیا۔ایک دوسرے ذرائع کا کہنا تھا کہ سیشن جج نے واضح طور پر انکوائری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق سیکرٹری داخلہ نے لاڑکانہ پولیس کو بتایا کہ اگر سیشن جج انکوائری کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تو وہ تحریری طور پر لکھ کر دیں،اطلاعات ہیں کہ جج نے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا کہ محکمہ داخلہ نے براہِ راست ان سے درخواست کی تھی جبکہ اس طرح کی ہدایات سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جاری کرتے ہیں۔دوسری جانب ایڈووکیٹ عشرت لوہار کا کہنا تھا کہ عدالتی تحقیقات اس وقت تک نہیں ہوسکتیں جب تک ایف آئی آر درج نہ ہوجائے۔تاہم ایڈووکیٹ علی پلھ نے مذکورہ بالا موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر سے قبل بھی جوڈیشل انکوائری کی جاسکتی ہے اور نمرتا کے اہلِ خانہ یہ انکوائری ہائی کورٹ کے جج سے کروانا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بی بی آصفہ ڈینٹل کالج (بی ایس ڈی سی) میں بیچلرز ان ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا مہر چندانی ہاسٹل کے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔اس موت پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ طالبہ نے خودکشی کی تاہم اہل خانہ کی جانب سے خودکشی کی بات کو مسترد کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضی وہاب نے بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ نمرتا کی ہلاکت کی شفاف تحقیقات کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ خط میں وائس چانسلر اور تمام ماتحت عملے کو نمرتا کیس میں محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
نمرتا ہلاکت کیس