واشنگٹن،تہران،یمن(خبر ایجنسیاں )امریکا کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مزید فوج بھیجنے کا اعلان ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے پینٹاگون میں ہنگامی نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی صدر نے سعودی عرب میں اضافی فوجی بھیجنے کی منظوری دیدی ہے۔انہوں نے کہا کہ اضافی فوجی بھیجنے کا فیصلہ امریکی قومی سلامتی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے علاوہ امریکی فوجی متحدہ عرب امارات میں بھی تعینات کیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا نے اضافی فوجی بھیجنے کا فیصلہ سعودی عرب کی درخواست پر کیا تاہم فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کی نوعیت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ان فورسز کی مدد سے دونوں ملکوں کے فضائی اور میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور امریکا انہیں دفاعی سامان فراہم کرنے میں تیزی لائے گاتاکہ یہ دونوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر سکیں۔اس موقع پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے سے سعودی عرب کا فضائی میزائل دفاعی نظام بہتر ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیج میں فوج کی مناسب تعداد بھیجیں گے جب کہ فوجی ہزاروں کی تعداد میں نہیں ہوں گے۔امریکی فوجی سعودیہ بھیجنے کا فیصلہ آئل تنصیبات پر حملے کے بعد کیا گیا تاہم امریکا ریاض کے سلطان ایئر بیس پر پیٹریاٹ میزائل دفاعی بیٹری نصب کرچکا جب کہ ریاض کے سلطان ایئر بیس پر 600 امریکی فوجی پہلے سے موجود ہیں۔جمعے کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی نہ کرنے کی پالیسی کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے قومی بینک پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ صدر کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی ملک پر نافذ کی جانے والی سخت ترین پابندیاں ہیں۔صدر کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ ایران میں 15 مختلف مقامات کو تباہ کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں چاہتے۔تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کی جانب سے سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا اعلان ایران کو مزید ناراض کر سکتا ہے۔ جو اس قبل بھی خطے میں امریکی فوج کی موجودگی پر معترض رہا ہے۔ ایران سعودی عرب میں ہونے والے حالیہ حملوں کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔سعودی عرب کی تیل کی دو بڑی تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور واشنگٹن ڈی سی اور تہران ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں۔دوسری جانب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جارحیت کرنے والے ملک کو تباہ کرنے کیلیے تیار ہے۔ایرانی دارالحکومت تہران میں گرائے گئے امریکی ڈرونز کی نمائشی تقریب سے خطاب میں میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا کہ ایران جارحیت کرنے والوں کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ جس ملک نے بھی ایران پر حملہ کیا اسے ہی میدان جنگ بنادیں گے، ہم کسی بھی جارحیت کرنے والے ملک کا مسلسل تعاقب کریں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ مکمل تباہ نہ ہوجائے لہٰذا محتاط رہیں اور غلطی نہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو ایران پر جنگ مسلط کرنیکی اجازت کبھی نہیں دیں گے، ایران کی دفاعی صلاحیتیں ابھی سب پر ظاہر نہیں ہیں کیوں اب تک ہم نے اپنی طاقت اور صلاحیت کا صرف چھوٹا سا حصہ ظاہر کیا ہے۔دریں اثناء یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملے روکنے کا اعلان کردیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملے روکنے کا اعلان کردیا۔ حملے بند کرنے کا اعلان سربراہ حوثی سیاسی کونسل مہدی المشاط نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سعودی عرب پر اب ڈرون، بیلسٹک میزائل و دیگر ہتھیار نہیں چلائیں گے۔حوثی سربراہ مہدی المشاط نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب ان کی اس خیر سگالی کا مثبت جواب دے گا اور اگر ان کے اس اقدام پر مثبت ردعمل نہ آیا تو جواب دینے کا حق رکھتے ہیں۔حوثی رہنما کا کہنا تھا کہ یمن جنگ کے تسلسل سے کسی بھی فریق کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جنگ کا تسلسل خطرناک پیشرفت کا باعث بن سکتا ہے تاہم جنگ بندی کا بڑا مقصد جانوں کا تحفظ اور عام معافی حاصل کرنا ہے۔مہدی المشاط نے کہا کہ امن کی کوشش کا مقصد سنجیدہ مذاکرات سے قومی مفاہمت کا حصول ہے، کسی فریق کو قومی مفاہمی عمل سے باہر نہ رکھا جائے اور صنعا ایئرپورٹ کھولا اور الحدیدہ بندرگاہ تک رسائی دی جائے۔
سعودیہ میں امریکی فوج