مولابخش گوٹائی لیاری کا پیلے

1311
 آل کراچی بوائز باکسنگ ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی لیاری عوامی اتحاد کے میر اشفاق بلوچ کاکھلاڑیوں کے ساتھ گروپ فوٹو
 آل کراچی بوائز باکسنگ ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی لیاری عوامی اتحاد کے میر اشفاق بلوچ کاکھلاڑیوں کے ساتھ گروپ فوٹو

تحریر : رمضان بلوچ
آج ہم لیاری کے ایک ایسے ہیروفٹبالر کی بات کریں گے جن سے چند روزقبل تقریبا” چالیس سال کے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے ریٹائرڈ فٹبالر ہیں جو معاشی مسائل سے دوچار نظر آئے اور نہ ان کے چہرے پر ناامیدی اور پرمژدگی کے آثار نظر آئے۔ وہ آج بھی ہمیں فٹ اور پرعزم دکھائی دیے ۔
فٹبال کی بات ہو اور برازیل و دنیا کے عظیم فٹبالر پیلے کا تذکرہ نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ 1999ء میں پیلے کو دنیا بھر کے فٹبال کلبس کی ووٹنگ کے بعد ورلڈ پلئیر آف دی سنچری کا اعزاز اور شریک پلئیر کے ساتھ پیلے کو فیفا پلئیزر آف دی سنچری کا ایوارڈ دیا گیا۔


اگر پاکستان میں فٹبال کی قدر اور عزت و توقیر کرکٹ کے مساوی ہوتیں ،یاپھراس کھیل کو سرکاری اور پرائیوٹ اداروں کی سرپرستی حاصل ہوتی، تربیتی اکیڈمیاں ہوتیں اور کھیل کے گراسی گراؤنڈز ہوتے تو آج اس قسم کے عالمی ایوارڈز کے مستحق لیاری کے فٹبالرز بھی ہوتے جن میں نمایاں نام کراچی یونیورسٹی کے گریجویٹ اور ماضی کے ہیرو معروف فٹبالر مولا بخش گوٹائی کا ضرورہوتا۔
سال 1968ء میں ترکی زبان کے ایک روزنامہ اخبار کے اسپورٹس صفحہ پر دو فٹبالرز کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک تو عظیم عالمی فٹبالر پیلے کی تھی۔ اندازہ لگالیں وہ دوسری تصویر کس کی ہوسکتی ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں پیلے کے برابر دوسری تصویر ترکی کے ایک فٹبال کلب کے کھلاڑی اور لیاری کے جواں سال فٹبالر مولا بخش گوٹائی کی تھی۔
اس رپورٹ میں پیلے اور گوٹائی (دونوں سینٹر فارورڈز کی پوزیشن پر کھیلتے تھے) کے کھیل کا موازنہ اور مولا بخش گوٹائی کو “چھوٹا پیلے” قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت گوٹائی اور لیاری کے ایک اور مایہ ناز پلئیر جبار بلوچ ایک معاہدے کے تحت ترکی کے ٹاپ کلاس کلب کی جانب سے کھیلتے تھے۔
لیاری کو “منی برازیل” کا نام خطاب ملا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے ڈیل ڈول،حلیے، مہارت اور فطری طور پر فٹبال کی جانب مائل ہونے کی وجہ سے لیاری کے نوجوانوںکو یہ نام اور خطاب ملا ہے۔ اور یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کے موقع پر برازیل کے عوام جس جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرتی ہے اس کی ایک جھلک یہاں لیاری میں بھی عملی طور پر عیاں ہے جہاں چہل پہل عروج پر ہوتی ہے حتی کہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین، بچے اور بوڑھے بھی اس “عالمی میلہ” کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور غالبا” یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ورلڈ کپ میں یہاں کی فیورٹ ٹیم برازیل ہی ہے۔
لیاری کے بارے میں محاورتا” یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی گود سے نکل کر گلیوں میں فٹبال کھیلنا شروع کردیتا ہے! اب توکوچ جاوید عرب کی سرپرستی میں ککری گراؤنڈمیں لڑکیوں کی فٹبال ٹیم بھی بن چکی ہے۔
سیفی لین و بغدادی کی “زرخیز سرزمین” نے جہاں علم و ادب کے تین ستونوں یعنی نادر شاہ عادل، ن،م،دانش اور صبا دشتیاری کی آبیاری کی ہے وہیں سے نامور انٹرنیشنل فٹبالرز عبدالغفور مجنا، غلام عباس، عبداللہ ہیرو، علی نواز، خمیسہ، لالا عاشق، سرور بلوچ اور قادر پتلا نے بھی اس کھیل میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
مولا بخش گوٹائی نے بھی سیفی لین لیاری میں 1947ء میںمتوسط گھرانے میں آنکھ کھولی اور پھر روایت کے مطابق” پہلے گلیوں میں اور پھر ترتیب وار سیفی اسپورٹس کلب۔ این جے وی اسکول ٹیم اور ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کی فٹبال ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی فطری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ جوہر اس وقت زیادہ آشکار ہوا جب انہیں کراچی یوتھ ٹیم کے لیے منتخب کیاگیا۔ جب تک وہ وہاں کھیلے کراچی کی یوتھ ٹیم چیمپئن رہی۔ پھر تو ان پر مزید دروازے کھلتے گئے۔
یہ 60 کی دہائی تھی جو ہر لحاظ سے سنہری دور کہلاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب فٹبال کا کھیل عروج پر تھا۔ کے ایم سی فٹبال اسٹیڈیم سے لے کر لاہور، کوئٹہ، پشاور اور ڈھاکا (اس وقت مشرقی پاکستان) کے میدانوں میں لاکھوں فٹبال کے شائقین کا ذوق و شوق قابل دیدنی تھا۔ اچھے کھلاڑیوں کی قدر وقیمت تھی۔
مشرقی پاکستان کے مشہور فٹبال کلبز میں ڈھاکا محمدن۔ وکٹوریہ اور ا ی پی آئی ڈی سی شامل تھے کو “بھاری ” معاوضہ ملتا تھا اور ان کلبز میں تقریبا” 70 فیصد کھلاڑی لیاری سے منتخب کیے جاتے تھے اور پاکستانی قومی ٹیم میں بھی یہی تناسب ہوتا تھا۔
مولا بخش گوٹائی اس وقت کی ٹاپ ٹیموں کے پی ٹی اور پی آئی اے اور مشرقی پاکستان میں ای پی آئی ڈی سی کلب میں کھیلتے رہے۔ 1964ء سے 1974ء تک انہوں نے چین، روس، ایران، ترکی، برما، انڈونیشیا، ہانگ کانگ، ملائیشیا اور نیپال میں پاکستان کی نمائندگی اور قومی ٹیم کی قیادت کی اور اپنے “خوبصورت کھیل” سے مقامی تماشبینوں کے دل بھی موہ لیے۔ اس طرح وہ انٹرنیشنل میڈیا کی نظروں میں آئے اور انہیں اس نوجوان کھلاڑی میں اس صدی کے عظیم فٹبالر پیلے کا عکس نظر آیا۔ یہ موازنہ بذات خود لیاری، کراچی اور پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔
مولا بخش گوٹائی الشیب فٹبال کلب شارجہ میں کھیلتے رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد اسی کلب میں نئے کھلاڑیوں کی کوچنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ آجکل بالکل آرام فرمارہے ہیں ۔ بچے شارجہ میں ہیں اس لیے ان کی زندگی “کبھی یہاں اور کبھی وہاں” کے درمیان گزررہی ہے۔ اپنی زندگی سے بہرحال مطمئن ہیں۔ بقول ان کے کھویا کم اور پایا زیادہ ہے۔
بہت ہی بردبار، بااخلاق اور ملنسار قسم کے انسان ہیں۔ نہ صرف فٹبال بلکہ وہ ہر سماجی اور سیاسی معاملے پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ان کاانداز فلسفانہ ہے۔ سیفی کلب میں اب بھی ان کی محفل جمتی رہتی ہے۔ پرانے دوستوں کی محفل میں ہم نے انہیں ہمیشہ خوش اور پرسکون پایا ۔ نہ جانے کتنے میچز میدانوں میں انہوں نے اپنی مہارت سے جیتے ہونگے لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا ہے وہ لوگوں کے دل جیتنے کے فن سے بھی خوب آشنا ہیں۔