شملہ معاہدے سے براء ت، اب نہیں تو کب؟

198

اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے بعد بننے والے ملک کے سیاسی نقشے کی تیاری کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد نے پیپلز پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں دھکیلنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا تھا۔ 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مقبول قیادت بے نظیر بھٹو کے مقابل میں میاں نوازشریف کو متبادل اور مقبول بنانے کا عمل شروع ہو چکا تھا اور اس مہم کے دوران آئی جے آئی نے اس عبارت پر مشتمل بڑا اشتہار اخبارات میں چھیوایا ’’تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا، اب لینا ہے کشمیر، ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘‘۔ اسلامی جمہوری اتحاد اس انتخاب میں تو نہیں اگلے انتخابات میں جیتا مگر شملہ کی زنجیر ٹوٹنا تھی نہ ٹوٹی مگر اس وقت بھی شملہ معاہدے کو ایک حلقہ زنجیر سمجھ رہا تھا۔ اب جبکہ بھارت نے پانچ اگست کے یک طرفہ قدم سے سارا منظر ہی بدل ڈالا ہے اب کشمیر کے اندر اور پاکستان کے نمایاں حلقوں کی طرف سے شملہ معاہدے سے اعلان برأت کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے ایک بڑے کشمیر مارچ میں بھی یہی مطالبہ دہرایا گیا۔ قانونی ماہرین بھی اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ شملہ معاہدے سے گلو خلاصی کا نادر موقع ہے۔
بھارت نے پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی ہیئت، حقیقت اور حیثیت کو اپنے طور پر بدل ڈالا۔ اس طرح بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، پنڈت نہرو کے بطور وزیر اعظم کشمیری عوام اور اقوام عالم سے کیے گئے وعدوں اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں سمیت ہر چیز کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھا۔ بھارت کے یک طرفہ قدم نے پاکستان کو دوطرفہ معاہدات کے بوجھ سے آزاد کردیا۔ شملہ معاہدہ دونوں ملکوں کو کشمیر سمیت تمام مسائل باہمی طور پر بات چیت سے حل کرنے کا میثاق ہے۔ پاکستان نے جب بھی کشمیر کی بات کسی بین الاقوامی فورم پر کرنے کی راہ اپنائی بھارت شملہ معاہدے کی دُہائی دیتا ہوا سامنے آگیا اور اس طرح وقتی طور پر ایک مشکل سے ٹالنے میں کامیابی حاصل کرتا رہا۔ اس طرح شملہ معاہدہ ایک سراب رہا پاکستان ایک موہوم امید پر اس کا تعاقب کرتا رہا۔ پانچ اگست کو بھارت نے ثابت کیا وہ پاکستان کے ساتھ اصل مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کے بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے تحت حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اب پاکستان شملہ معاہدے اور دیگر دوطرفہ معاہدوں کی تعفن زدہ لاش کو کندھوں پر اُٹھائے نہیں پھر سکتا۔ پاکستان کو شملہ میں بند ہونے والے آپشن کھولنے کے لیے اس طوق کو اتار پھینکنا چاہیے۔ حیرت یہ ہے کہ حکومت پاکستان ابھی تک شملہ کی زنجیر توڑنے سے احتراز اور اغماض برت رہی ہے۔ یہ کس امید پر ہورہا ہے؟ کسی کو خبر نہیں، عین ممکن ہے امریکا اور کوئی اور طاقت پاکستان کو اس قدم سے باز رکھ رہی ہو مگر ان طاقتوں کے پاس متبادل کیا ہے؟۔ بھارت ثالثی کی پیشکشوں کو مسلسل مسترد کرتا چلا آرہا ہے۔ ڈپلومیسی اور معقولیت کے الفاظ مودی حکومت کی ڈکشنری میں باقی نہیں رہے۔ ایسے میں بھارت سے دوطرفہ بات چیت سے مسئلہ حل ہونا خود فریبی کے سوا کچھ اور نہیں۔
پاکستان بھارت پر بھلے سے حملہ نہ کرے مگر پہلی فرصت میں شملہ معاہدے سے اعلان برأت کرے اور شملہ معاہدے کے خاتمے کے بعد کنٹرول لائن از خود دوبارہ سیز فائر لائن بن جائے گی اور کسی کشمیری باشندے کو سیز فائر لائن آر پار جانے سے روک نہیں سکے گی۔ بھارت اگر پانچ اگست کے اقدامات واپس لیتا ہے تو شملہ معاہدے کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال بھارتی حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کرنے کے بجائے شملہ معاہدے کو مشروط ہی سہی مگر ختم کرنے کا اعلان ضروری ہے۔ حکومت کو پاکستانی عوام کی اس اجتماعی خواہش اور مطالبے کے احترام میں کوئی فیصلہ کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ مگر اس کا کیجیے کہ ابھی تک پاکستانی حکام فضائی حدود کی بندش کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہیں حالانکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے محاصرے کو ایک ماہ ہونے کو ہے۔
حکومت پاکستان پانچ اگست کے فیصلے کے بعد بھارت کے خلاف احتجاج کے طور پر کچھ اقدامات اُٹھا چکی ہے مگر ابھی اس ضمن میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ فضائی حدود کی بندش اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ حکومت پاکستان اب فضائی حدود کی بندش کا جائزہ لے رہی ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تسلیم کیا ہے ابھی بندش کا باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت جو اقدامات اب تک اُٹھا چکی ہے ان میں زیادہ تر کی حیثیت علامتی سے زیادہ کچھ نہیں سوائے تجارت پر پابندی کے۔ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے بھارت کے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی کیونکہ اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر جنگ مسلط کرسکتا ہے۔ اس پابندی سے بھارتی حکومت اور شہریوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کی زیادہ تر آمد ورفت مغرب
کی سمت ہے یعنی یورپ، امریکا اور خلیجی ریاستوں کی طرف زیادہ تر پاکستانی اور بھارتی شہری سفر کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو فضائی حدود کی بندش سے زیادہ نقصان تو نہ ہوا تھا مگر بھارت کے شہریوں کو مغربی ملکوں کے سفر کے لیے اضافی اخراجات اور اضافی وقت برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ بھارتی ائر لائنز کو بھی سفر میں نئی طوالت کے باعث بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے تھے۔ افغانستان کی جانب بھارتیوں کا سفر اور افغانوں کا بھارت کی جانب سفر بھی اس پابندی کے باعث مشکل ہو گیا تھا۔ بھارتی شہری اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی حکومت پر دبائو ڈالنے لگے تھے۔ اسی لیے افغان صدر اشرف غنی افغانوں کے مفاد کا ورد کرتے ہوئے پاکستان سے یہ پابندی اُٹھانے کا مطالبہ کرگئے۔ جس کے بعد پاکستان نے پابندی اُٹھادی اور اب نریندر مودی بھی یہ فضائی حدود استعمال کرکے مغربی کی جانب عازم سفر ہوا۔ پاکستان کی فضائی حدود نہ صرف بھارت کے لیے کھلی ہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری کے مزے بھی بھارت لے رہا ہے۔ ہم خود تو تجارت بند کیے بیٹھے ہیں مگر افغانوں کے مفاد کے لیے ہم بھارت کو تجارت کی اجازت دیے ہوئے ہیں یہ قطعی عجیب صورت حال ہے۔ حکومت پاکستان کو اس مرحلے پر بھارت کے خلاف ٹھوس اقدامات اُٹھانا چاہیے۔ بعد میں وقت گزر جائے گا اور اس طرح کے اقدامات کی اہمیت شاید وہ نہ رہے جو اس مرحلے پر ہے۔ اس لیے حکومت کو شملہ معاہدے سے گلو خلاصی کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود کی بندش اور افغانستان کے ساتھ بھارتی تجارت پر فوری پابندی عائد کرنی چاہیے تاکہ بھارت کو اس کا کچھ تو مالی نقصان ہو۔ اب بھی اگر غور کرنے اور سوچنے میں وقت ضائع ہوا تو پھر عمل کا وقت کب آئے گا؟۔