وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں

1141

 

 

اسلامی ممالک کشمیر کی صورتحال کو کس طرح انجوائے کررہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
پہلے پا کستان۔ سول اور فوجی قیادت کے پرجوش بیانات۔ لگتا ہے دوچار دن کی بات ہے کشمیر فتح ہوا چاہتا ہے۔ ایک سالہ جشن ترقی کی خوشی میں مخالفین کو چن چن کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ سول ملٹری تعلقات جو ایک پیج پر تھے اب ایک لکیر پر آگئے ہیں۔ ’’خطے کی صورتحال‘‘ جنرل باجوہ کی توسیع کے لیے بہترین جواز قرار پائی۔ سلامتی کونسل کی میٹنگ کے انعقاد سے ابھی تک لطف اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں جانے کا شوشا ’’کشمیر کے سفیر‘‘ کی ایک اور کامیابی۔ کشمیر کو عالمی ایشو بنانے کا کریڈٹ جس دھڑلے سے لیا جارہا ہے وہ بجائے خود جہانِ حیرت ہے۔ حکومتی حلقوں میں کسی کو یاد نہیں کہ نہ مودی آئینی جارحیت کرتا نہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوتا۔ امریکا کی ثالثی اور برطانیہ کی غیر جانبداری پر حکومت کو شادیانے بجانے سے کون روک سکتا ہے۔ فرانس کو آگے بڑھنے کا اشارہ کس نے کیا ہے اس طرف کون دھیان دے۔ روس مسئلہ کشمیر پر سابقہ پالیسیوں سے کیوں انحراف کررہا ہے۔ یہ ہماری جادو اثر سفارت کاری کا کمال ہے یا چین روس بڑھتی ہوئی قربت کا۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ مودی کی عالمی تنہائی کا ڈھول پیٹ کر لطف اٹھاتے اور دانت نکالتے رہیے۔ کشمیر پر بیانات کی گرما گرمی، ٹویٹس کی ہنگامہ خیزیوں میں یہ خفت کس مہارت سے دبادی گئی کہ حکومت نے ترقی کی رفتار 4فی صد رکھنا چاہی تو مالکان حقیقی نے ناگواری سے منہ بناتے ہوئے حکم دیا ’’نہیں چار فی صد نہیں 2.5بلکہ اس سے بھی کم‘‘۔
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ مرگئے مجھ میں
متحدہ عرب امارات نے اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پہلے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا پھر مزید اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی دے دیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کو یہ ایوارڈ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں پر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ایک سادہ اور پر وقار تقریب منعقد کی گئی جس میں نریندر مودی کو امارات کا سب سے بڑا ’’زید ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چونکہ کشمیر کے مسلمانوں پر تین ہفتے سے کھانا پینا بند کررکھا ہے، مسلسل کرفیو لگا رکھا ہے کشمیری جوانوں کو بے دریغ کاٹ رہا ہے اور مسلمان خواتین کی عزتیں پامال کر رہا ہے اس لیے کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی در یکجہتی کرتے ہوئے اس موقع پر کوئی ثقافتی اور میوزیکل پروگرام منعقد نہیں کیا گیا۔ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی مذمت پر یہ ایک موثر پیغام تھا جو مودی کو دیا گیا۔ امارات کے حکمران مودی کو جنونی، انتہا پسند، مسلمانوں کا قاتل اور انسا نیت کا دشمن سمجھتے ہیںلیکن بات کہنے کا ایک وقت ہوتا ہے تب تک وقت گزاری کے لیے پسندیدہ شخصیت اور اعزاز کا مستحق قرار دینے میں کیا حرج ہے۔ بعض بے خبر اہل دانش کا خیال ہے کہ ممکن ہے حکمرانی کی مصروفیات میں امارات کے حکمرانوں کو ابھی تک پتا ہی نہ چلا ہوکہ نریندر مودی اہل کشمیر پر ظلم توڑ رہا ہے۔
جہاں تک سعودی بھائیوں کا تعلق ہے وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ اس لیے مودی نے جیسے ہی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا ریاض دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے بیان دیا کہ سعودی عرب جموں و کشمیر کے موجودہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سعودی بھائیوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مسئلے کا حتمی اور درد مندانہ حل بھی پیش کردیا کہ ’’بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق تنازع کا پرامن طریقے سے حل نکالا جائے۔ متعلقہ فریق خطے میں امن واستحکام کی حفاظت اور کشمیر کے مفادات کا لحاظ کریں‘‘۔ سعودی بھائیوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر دلچسپی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کی ٹیلی فون کال پر ان سے بات چیت کی زحمت اٹھائی ورنہ سعودی خواتین کی اصلاح اور بہبود کے کار مسلسل میں ان کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ کسی اور سمت دیکھ سکیں۔
قطر، کویت، بحرین اور عمان اسلامی دنیا کے اہم ممالک ہیں۔ انہوں نے بھی یقینا اہل کشمیر سے یکجہتی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہوگا۔ سعودی عرب اور امارات کے برعکس ان برادر ممالک نے کشمیر میں کرفیو اورکمیونی کیشن بلیک آئوٹ پر بھی بھارت کی مذمت کی ہوگی لیکن یہ ناہنجار میڈیا ایسی خبریں کب رپورٹ کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بحرین کے رہنمائوں سے مسئلہ کشمیر پر مدد کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے کیا جواب دیا عمران خان عن قریب سیاست سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جو کتاب لکھیں گے اس میں یہ جواب ضرور موجود ہوگا۔ بحرین کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ نریندر مودی نے فرانس اور امارات کے بعد جس ملک کو شرف باریابی بخشا ہے وہ بحرین ہے۔ یہ موقع ہوگا جب بحرین کے حکمران امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر مودی سے جواب طلب کریں گے۔
ایران کا ابتدائی ردعمل واجبی سا تھا۔ کمال مہربانی کرتے ہوئے ایران میں بھارتی سفارت خانے کے باہر 60طالب علموں کو احتجاج کی اجازت دی گئی۔ لیکن 21اگست کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ ’’کشمیریوں کو مزید ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ہم بھارت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ کشمیر سے متعلق منصفانہ پالیسی اپنائے اور کشمیریوں کے استیصال کو روکے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانیہ جان بوجھ کر خطے میں ایک زخم چھوڑ گیا۔ جس کی وجہ سے کشمیر میں تنازع جاری رہا‘‘۔ شرپسندوں کا کہنا ہے کہ ایران کے اس سخت موقف کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے امریکا کے دبائو میں آکر ایران سے تیل کی خریداری میں کمی کردی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس موقع پر ایک سخت بیان دیا جس میں نریندر مودی کے اقدام کی مذمت کی گئی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر کو کشمیر کی تشویش ناک صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس پر ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ وہ جلد ہی ترکی کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اراکین کو کشمیر کی تشویش ناک صورت حال سے آگاہ کریں گے۔ ملائشیا نے بھی مسئلہ کشمیر پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ ملائشیا اس باب میں کوئی سخت قدم اٹھانے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انتہا پسندانہ تقاریر کا مسئلہ بیچ میں آگیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مہاتیر محمد جیسے مہان مسلم لیڈر کو جس قدر پریشان کررکھا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔کیا ضرورت تھی انہیں ملائشیا میں ہندئوں کے حوالے سے تقریر کرنے کی؟
کشمیر کا مسئلہ اسلامی ممالک کے ان حکمرانوں سے حل ہونا ہے نہ حل ہوگا۔ البتہ اس آئینے میں ان حکمرانوں کی صورت دیکھی جاسکتی ہے جو امریکا، یورپ، اسرائیل اور بھارت کے سامنے تو کمزور، بے وزن اور بھیگی بلی بن جاتے ہیں لیکن امت کی مشکلات پر ان کے دل پتھر بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ پتھر تو خوف خدا سے گر بھی جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے دکھ، تکلیف اور سانحات پر ان کے دل نہیں پگھلتے۔ یہ وہ حکمران ہیں جن میں سے بیش تر کے آبائو اجداد نے امت کے ٹکڑ ے ٹکڑے کرنے میں کردار ادا کیا۔ آج ان کی اولادیں ان ٹکڑوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہیں۔ امت کے دشمنوں سے وفاداریاں اور امت سے غداریاں کررہی ہیں۔ انہوں نے امت کو دفن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ان کے چہروں پر نہ حزن ہے نہ ملال۔ یوں خوش ہیں جیسے دولت کونین پا گئے۔