انسانیت کہاں جائے؟

548

لبرل ازم اور سیکولر ازم رواداری، وسیع النظری، کشادہ دلی اور برداشت کی علامت ظاہر کیے جاتے ہیں۔ قوم، زبان، رنگ، نسل اور مذہب کے بجائے نوع انسانی کو انسا نیت کے تناظر میں دیکھنے کا دعویٰ۔ یہ فرد کی تکریم اور اصلاح پسندی کے ساتھ ساتھ انفرادی، سیاسی اور ملکیتی حقوق کی اہمیت کا نام بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت لبرل ازم کا فخر ہیں۔ مذہب کا دشمن یہ نظریہ عصر جدید میں عقیدے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ لبرل ازم نے جان لاک اور آدم اسمتھ جیسے مفکرین سے استفادہ کیا۔ آزاد تجارت، سماجی تحفظ اور سب کی ترقی لبرل ازم کے وعدے بھی تھے اور دعوے بھی۔ لبرل ازم سے وابستہ اکثر باتیں بہت خوش کن تھیں۔ لیکن کمیونزم کی طرح آج یہ نظریہ بھی خود اپنے مسکن میں ناکامی اور نامرادی کی جانب تیز تیز قدم رواں ہے۔ ایک فریب جو رو بہ زوال ہے۔ آزاد منڈی اور آزاد معاشرے کے تصور سے لبرلز بتدریج فاصلہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ لبرل ازم کے دعووں کا تقاضا تھا کہ تارکین وطن کا خوش دلی سے استقبال کیا جاتا لیکن اس مسئلے نے یورپ میں ایسے جذبات، خیالات اور حکومتوں کی تشکیل کی ہے جو لبرل ازم کی ضد ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ رنگ، نسل اور طبقاتی نفرتوںکی لپیٹ میں ہے۔ حکومتیں عوام کو دی جانے والی سہولتوں میں کمی کرتی جارہی ہیں۔ فلاحی ریاست کا ادارہ زوال پزیر ہے۔ دنیا کے 167ممالک میں سے نصف غیر جمہوری بنتے جارہے ہیں۔ امریکا میں ڈونالڈ ٹرمپ ایک ایسے صدر ہیں جو جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے لبرل رواداری اور وسیع النظری کے بجائے نفرت اور تنگ دلی کی علامت ہیں۔ لبرل ازم کے ایک مفکر کا کہنا ہے ’’لبرل ازم کے منکر معاشرے کے لیے بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اس طرح کچل دینا چا ہیے جس طرح مضر صحت کیڑے مکوڑوں کو کچلا جاتا ہے‘‘۔ لبرل ازم نے ایک طرف دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی سے ان کا خدا، رسول اور وحی پر مبنی تعلیمات چھین لی ہیں تو دوسری طرف انسانی تعلقات میں نفرتوں، دشمنیوں، عدم برداشت، انتقام اور قتل وغارت کو اس طرح پروان چڑھایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی پرامن بقائے باہمی سے دور اور بہت دور چلی گئی ہے۔ ایشیا میں بھارت اس کی بدترین مثال ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے باب میں ہندوئوں کی تنگ نظری، بے رحمی اور قساوت کے ننگے مظاہرے آج دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہ انڈیا لبرل ازم اور جمہوریت جس کی شناخت اور گھمنڈ تھا۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مسلمان بے سہارا رہ گئے تھے۔ ان پر ملک توڑنے کا الزام تھا۔ ایسے میں نہرو کا سیکولرازم اور لبرل ازم کا نعرہ مسلمانوں کی امید تھی۔ کانگریس کی حکومتوں میں مسلمانوں کو چنیدہ طور پر اہم علامتی عہدے دیے گئے۔ الیکشن کے دوران مسلمانوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جاتا اور ان کی خوشی کا بھی خیال رکھا جاتا لیکن اندروں مسلمانوں کی تباہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ نئی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں کی کیا حالت ہوگئی اس کا اندازہ 2005 میں من مو ہن سنگھ کی حکومت میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا تھاکہ ملک کی بیش تر ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت انتہائی پس ماندہ دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ مسلمان سماجی، اقتصادی اور تعلیمی میدان میں بہت پیچھے اور محرومیوں کا شکار ہیں۔ مرکزی اور ریاستی ملازمتوں، ریلوے، دفاعی اداروں اور پو لیس میں روزگار کے حصول میں مسلمان بہت پیچھے ہیں۔ یہ نہرو کے سیکولر اور لبرل ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت تھی۔ جس میں چنیدہ مسلمانوں کو علامتی طور پر اہم عہدے دیے جاتے تھے لیکن عملی طور پر فسادات کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کی صنعتیں برباد کردی گئیں۔ علی گڑھ میں تالے کی صنعت کو تباہ کرنے کے لیے خونیں فسادات کرائے گئے اور مسلم یونی ورسٹی کا اقلیتی کردار بھی ختم کردیا گیا۔ فیروز آباد کے فسادات میں چوڑی کی صنعت کو برباد کردیا۔ میرٹھ میں بار بار فساد کرائے گئے یہاں تک کہ قینچی اور چھریوں کی صنعت کو تباہ کردیا گیا۔ مراد آبادکی برتنوں کی صنعت کو بھی بڑی منصوبہ بندی سے ختم کردیا گیا۔
ہندوستان سیکولرازم کے یورپی تصور سے تو نہرو کی کانگریسی حکومتوں کے دور ہی میں دستبردار ہوچکا تھا اب مودی کا ہندوستان سیکولرازم کے ہندوستانی ورژن سے بھی کنارہ کش ہوچکا ہے۔ ہندوستانی سیکولرازم مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن پھر بھی ایک سہار تھا۔ مودی نے اس باریک سے پردے کو بھی پھاڑ کر پھینک دیا ہے۔ مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے فسطایت مضبوط ہوئی ہے۔ بھارت مکمل طور پر ایک ہندو راشٹر بن چکا ہے۔ ساری مصیبتوں نے مسلمانوں کا گھر دیکھ لیا ہے۔ پہلے ایک سوامی ادتیا ناتھ تھا اب بیش تر ہندو سوامی ادتیا ناتھ کا روپ دھار چکے ہیں۔ مودی بڑے منظم پیمانے سے مسلمانوں کو تنہا کرکے مار رہا ہے۔ لوک سبھا میں مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں۔ پہلے الیکشن میں مسلم ووٹ بہت اہمیت کا حامل اور کامیابی میں بنیادی کردار باور کیا جاتا تھا۔ مودی نے اس نظریہ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ مودی نے یہ حکمت عملی متعارف کرائی کہ کسی مسلم امیدوار کو کھڑا نہ کیا جائے۔ صرف ہندو امید واروں کو ٹکٹ دیے جائیں۔ ہندو ووٹر کو اہمیت دی جائے۔ مسلمان ووٹر کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔
مودی کے ہندوستان میں گائے کشی کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ہراساں اور قتل کرنے کا وہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ روزانہ ہندوستان میں اس بنیاد پر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسلمان کی جان لی جارہی ہے اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ گھر واپسی کے نعرے کی آڑ میں دیہاتوں میں کمزور مسلمانوں کو ہندومت میں دھکیلا جارہا ہے۔ نریندر مود ی کے گرو گول والکر کا علی الاعلان کہنا تھا کہ مسلمان اور عیسائی باہر سے آئے ہیں۔ ان کو ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہیں اس ملک سے نکلنا ہوگا یا پھر ہندو دھرم اختیار کرنا ہوگا۔ دھرم جاگرن سمیتی نے اعلان کر رکھا ہے کہ 2021 تک ہندوستان کے تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بناکر پورے ملک کو ایک قوم یعنی ہندو قوم بنادیا جائے گا۔ وشوا ہندو پریشد کے چمپت رائے کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اوریجنل مسلمان بہت کم ہیں۔ اکثریت ان کی ہے جن کے آبا واجداد ہندو تھے جنھیں جبراً مسلمان بنالیا گیا۔ وشوا ہندو پریشد اب تک نصف کروڑ سے زائد مسلمانوں کو ہندو بناچکی ہے۔ بی جے پی کے سبرا مینم سوامی کا کہنا ہے کہ مندروں کی طرح مساجد مقدس جگہیں نہیں ہیں۔ انہیں مسمار کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ چند اقدام تھے جو مودی کی حکومت اور جماعت مسلمانوں پر جاری رکھے ہوئے ہے لیکن مودی نے ہر ہندو کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھردی ہے کہ ہر ہندو مسلمانوں کو مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہے۔ ہریانہ میں صورتحال یہ ہے کہ بڑے کا گوشت تو درکنار مرغی کے گوشت کی دکانیں بھی شاز ہی کھلی ملتی ہیں۔ لو جہاد والے گھروں میں گھس کر مسلمان لڑکے لڑکیوں کو سڑ کوں پر گھسیٹ کر بے حرمت کررہے ہیں۔ ہندوستان میں نہ مسلمانوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ کھانا پینا۔ مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں آئے دن اخبارات میں اس طرح کی رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو فلاں سن تک ہندوستان میں مسلمان اکثریت اور ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے۔ مسلمانوں سے خریدوفروخت نہ کرنے کی مہم بھی زوروں پر ہے۔ آٹھ دس ہندو اکٹھے ہوتے ہیں جہاں کسی مسلمان کو تنہا دیکھا مارنا پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اتنی ابتر کبھی نہیں تھی۔ مسلمان ہندو اکثریت کے ہاتھوں قتل ہورہا ہے، ذلت میں مبتلا کیا جارہا ہے، سور اور گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سسک رہا ہے۔ آئے دن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ہدف ہے۔ مسلمان زیادہ لیکن دیگر اقلیتوں کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ الغرض انسانیت کی جائے پناہ نہ کمیونزم میں ہے، نہ سرمایہ داریت میں، نہ سیکولرازم میں نہ لبرل ازم میں اور نہ کسی اور نظام میں۔ ہر نظام اپنی جنم بھومی اور مسکن میں پناہ کی تلاش میں ہے۔ پناہ صرف اسلام کے پاس ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بھی پناہ کا صرف ایک ہی راستہ ہے اسلامی نظام کی بحالی کا راستہ۔ خلافت راشدہ کا راستہ۔