پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش فرمایا۔ اس خواب کی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز اور کرشمہ ساز قیادت میں ممکن ہوئی۔ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ ہے۔ اس نظریے کو مکمل استدلال کے ساتھ سید مودودی نے اپنی تحریروں میں واضح کیا۔ اگر قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق یہ وطن تعمیر کیا جاتا تو نہ تو یہ دولخت ہوتا اور نہ ہی آج بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے 1973ء میں ایک متفقہ دستور مل گیا۔ اس دستور کے بعد بھی دو مرتبہ ملک میں مارشل لا لگا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ دستور ان صدموں کو برداشت کرگیا اور اب تک موجود ہے۔ اس دستور کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ اس وقت تو بالخصوص دستور کی دو اہم دفعات 62 اور 63 مفاد پرست اشرافیہ اور ان کے حواریوں کو بری طرح کھَلتی ہیں اور وہ امانت ودیانت اور سچائی وصداقت کے اصولوں پر مشتمل دفعات کو دستور سے خارج کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ ان دفعات کا دستور سے اخراج ایک عظیم قومی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ پوری قوم کے تمام باشعور طبقوں کی ذمے داری ہے کہ ان سازشوں کو ناکام بنائیں۔
ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے خلاف پوری طرح اپنی خباثت اور جارحیت کا ارتکاب کررہا ہے۔ ملک کے اندر بھی افراتفری کا عالم ہے۔ خدانخواستہ اس دستور کو کچھ ہوا تو پھر کوئی متفقہ دستاویز بنانا ناممکن ہوجائے گا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس دستور کی وفاداری کا دم بھرتی ہیں۔ اس دستور میں طے کیے گئے امور پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو بہت سی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ نئی وجود میں آنے والی حکومت کے سربراہ جناب عمران خان نے مدینہ کی اسلامی ریاست کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ وہ اس پر کتنا عمل کرتے ہیں، وقت جلد بتا دے گا۔ اگر موصوف اس راستے پر اخلاص کے ساتھ چلے تو انہیں تعاون بھی ملے گا اور ملک و قوم کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ اگر انہوں نے وعدوں کی خلاف ورزی کی تو تاریخ کا فیصلہ بڑا بے لاگ اور بے رحم ہوتا ہے۔ انہیں اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ملک و قوم کے لیے خیر کے دروازے کھول دے۔
دستور پاکستان قرآن وسنت کو بالادست قانون قرار دیتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار کرتا ہے۔ قومی زبان اردو کو قرار دیتا ہے اور اس کی تنفیذ کا لائحہ ٔ عمل دیتا ہے۔ سود کو ختم کرنے کا باقاعدہ ایک فریم ورک اس میں موجود ہے۔ وہ مدت جس کے اندر اندر سود ختم کرنا تھا وہ بھی گزر چکی ہے، مگر آج تک ہم سود کی لعنت سے چھٹکارا نہ پاسکے۔ دستور کی دفعہ 62، 63 منتخب نمائندوں کے لیے اسلامی ضابطوں پر مشتمل ہے۔ اس کے خلاف گہری سازشیں ہورہی ہیں۔ خدا کے لیے اگر اس ملک کی بھلائی اور آنے والی نسلوں کی فلاح مطلوب ہے تو حکومت دستور کی روح کے مطابق اپنا قبلہ متعین کرے۔ تمام دینی وسیاسی جماعتوں، عدلیہ اور فوج، اہلِ علم ودانش اور ذرائع ابلاغ سب ہی کو اپنے ملکی دستور کا احترام کرنا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک متفقہ موقف پر اکٹھے ہوجانا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ قومی سوچ پروان چڑھ جائے تو یومِ پاکستان منانے کا لطف بھی دوبالا ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں اندرونی وبیرونی تمام فتنوں کا سدباب ہوسکتا ہے اور پاکستان ایک ناقابل شکست ملک کے طور پر دنیا میں سرخرو وسربلند ہوسکتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا بہت بڑا اور تاریخی کارنامہ ہے، مگر محض ایٹمی قوت بن جانے سے بات نہیں بنتی۔ قومیں اپنے اساسی نظریات کی حفاظت کرکے عزت و احترام پاتی ہیں۔ ’’ہم ایک زندہ قوم ہیں‘‘ کا ترانہ بڑا ایمان افروز ہے، مگر ہمیں زندہ قوم بننے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ روایتی انداز میں یوم پاکستان منانے کے بجائے آئیے عہد کریں کہ ہم ایک زندہ قوم بن کر دکھائیں گے۔ اس کے لیے قرآن وسنت اور دستور پاکستان ہی ہمارے درمیان نقطۂ اتحاد بن سکتا ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اپنی آنکھوں سے پاکستان دیکھا تو نہیں تھا مگر انہیں پاکستان بننے کا یقین تھا۔ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے، اس کا اظہار ان کی تحریروں (نثر اور نظم) میں جا بجا ملتا ہے۔ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ سرورِ عالم ؐ کی ذات بابرکات ہے۔ اقبال کے الفاظ میں
بمصطفٰےؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!
کوئی بھی نظامِ حکومت شریعت سے بالاتر ہو کر چلایا جائے تو اسے نہ اسلامی کہا جاسکتا ہے نہ پاکیزہ۔ علامہ نے اس کی طرف یوں اشارہ فرمایا: ’’اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی موزوں شکل میں ترویج، جب کہ اسے شریعت کی تائید و موافقت حاصل ہو، حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔‘‘ (علامہ اقبال کا قائداعظم ؒ کے نام خط، ۲۸مئی ۱۹۳۷ء)
اقبال کی کئی تحریریں اس کی مزید تائید کرتی ہیں: ’’اسلام ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت ہمیشہ قائم رہے گی۔‘‘ (مقالات اقبال)
’’اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں ہے یہ تو ایک ایسی ریاست ہے جو تصور اجتماعیت سے ہویدا ہوئی ہے … اسلامی ریاست کا انحصار اخلاق کے تار و پود پر استوار ہوتا ہے، جو انسان کو انسان مانتا ہے، نہ کہ ایک مخلوق جو زمین سے نکل پڑی ہو، مثل شجر و حجر اور اس زمین یا زمین کے قطعے سے اسے نسبت دی جاتی ہو بلکہ وہ تو انسان کو ایک روحانی ہستی گردانتا ہے، جو ایک اجتماعی ہیئت میں ایک فعال عنصر کی شکل میں فرائض اور حقوق دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ (خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء) ’’اسلام کا نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ یہ خود اس کا پیدا کردہ ہے، اور حیاتیاتی طور پر اس سے پیوست ہے۔‘‘ (خطبہ صدارت اجلاس مسلم لیگ الٰہ آباد ،۱۹۳۰ء)
نام نہاد دانش ور دین اور سیاست میں یکسانیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے دلائل انتہائی بودے اور کمزور ہیں مگر بدقسمتی سے میڈیا پر ایسے لوگوں کا تسلط ہے۔ اقبال کوئی مولوی نہیں تھے، جدید تعلیم یافتہ اور مغرب کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اسلام دین و سیاست میں تفریق اس لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہیئت ترکیبی ان ہر دوعناصر کے امتزاج کی متقاضی ہے۔ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے، نہ ملوکیت، نہ ارسٹا کریسی ہے، نہ تھیا کریسی بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔‘‘ (ملفوظات اقبال)
منظوم انداز میں فکر اقبال زیادہ مؤثر ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
کس نہ گردد درجہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس
دو قومی نظریے کے زبردست مؤید اور شارح سید مودودیؒ کی ایک تحریر ان دونوں عظیم رہنماؤں کے حوالے سے بہت فکر انگیز ہے۔ فرماتے ہیں: ’’علامہ اقبال اور قائداعظم آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا، اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔
اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جارہے ہیں، لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی، یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے؟ میں کہتا ہوں اگر آپ نے اس کو کھو دیا، تو تاریخ انسانی یہ بات ثابت کر دے گی کہ یہ ایک بے وقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں، ان گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جائداد قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا، مگر اس نعمت خداوندی کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا!)
اگر آج آپ نے سیکولرازم یا وطنی قومیت کے ذریعے کسی اور باطل ازم کو اختیار کیا، تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہوجائے گی بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہوجائے گا، اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برصغیر میں محمد رسول اللہ ؐ کی امت کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘ (تفہیمات، جلد پنجم، طبع دوم 1996، ص57)