اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈیسک)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں سہولت کار ہے ضامن نہیں‘ امریکا اگر افغانستان میں امن و استحکام کے مقاصد کے حصول کے درمیان کسی اور جانب مشغول ہوا تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے بات چیت کی اور آغاز میں پاک فوج کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔بعد ازاں صحافیوں سے پاک امریکا تعلقات اور افغان امن عمل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے طالبان قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنائیں،اس ملاقات کا مقصد ہے کہ انہیں انٹرا افغان مذاکرات کے لیے قائل کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ 19 سال ایک طویل عرصے ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ اس عرصے میں بہت ہی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے پورا خطہ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان متاثر ہواتاہم ہم اسے مزید طول نہیں دے سکتے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سوچ میں فرق آیا ہے اور جس نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے، وزیر اعظم کا دورہ واشنگٹن بہت مفید رہا اور ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اس حوالے سے پیش رفت نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقاصد واضح کرنے چاہییں،اگر امریکا کا اس وقت مقصد افغانستان میں امن و استحکام ہے تو ہماری پوری توجہ افغانستان پر ہونی چاہیے،اگر ہم اس نازک لمحے پر ہم کسی اور جانب مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا نے ماضی میں غلطی کی کہ افغانستان کا مسئلہ چل رہا تھا اور وہ عراق کی جانب چلے گئے لیکن آج افغانستان کا مسئلہ ایک نازک صورتحال کی طرف چلا گیا ہے اور نتائج کی توقع ہے۔افغان امن عمل پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے میں سہولت کار ہے،ضامن نہیں ہے،پاکستان تنہا سارا بوجھ نہیں اٹھاسکتا،یہ مشترکہ ذمے داری ہے لیکن پاکستان دیانت داری سے آگے بڑھ رہا ہے۔کشمیر کے معاملے پر ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ ثالثی سے راہ فرار اختیار کی ہے اور وہ کبھی بھی تیسرے فریق کی ثالثی پر متفق نہیں دکھائی دیا، بھارت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر ایک دوطرفہ مسئلہ ہے اور شملہ معاہدے کے تحت ہمیں اسے دوطرفہ طور پر حل کرنا ہے لیکن بھارت دوطرفہ نشست کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت نہ دوطرفہ نشست کے لیے تیار ہے نہ تیسرے فریق کی ثالثی تسلیم کر رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بتدریج بگڑ رہی ہے، اس وادی کے بارے میں کچھ ایسی معلومات آئی ہیں جو تشویشناک ہیں،جس پر کشمیر کمیٹی کو اعتماد میں لینا چاہوں گا اور اگر کمیٹی نے بہتر سمجھا تو ایوان کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی واضح پالیسی ہے کہ کوئی ایسا عمل جس سے آبادیاتی تبدیلی کا خدشہ ہو وہ قابل قبول نہیں ہے،مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں،یہ حل طلب مسئلہ ہے لہٰذا اس میں کوئی آبادیاتی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پورا کشمیر سراپا احتجاج ہے اور وہاں کی صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افریقا وہ براعظم ہے ،جس میں ماضی میں توجہ نہ دی جاسکی، وہاں کے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اس درجے پر نہیں جس پر ہونے چاہیے تھے تاہم افریقی ممالک میں ہماری تجارت اور سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے یوم افریقا پر مناظرے کا اہتمام کیا،جس پر ان کا شکر گزار ہوں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعدہم دفتر خارجہ میں افریقی سفرا کی ایک کانفرنس منعقد کریں گے،جس میں تمام افریقی مشنز کے سفراکو بلایا جاے گا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس کانفرنس میں افریقی ممالک کے قونصلر جنرلز کو بھی مدعو کیا جائے گا، اس کے علاوہ براعظم افریقا میں تجارت اور سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔