پاکستان پر بیتے ہوئے دوعشروں کا سبق

377

پاکستان ڈپلومیسی کی راہوں پر اب تنہائیوں کو پیچھے جھٹک کر آگے بڑھ رہا ہے۔ چند برس پہلے یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان عالمی محاذ پر یکا وتنہا ہے اور اگر اپنے سوا اس کا کوئی مونس وغم خوار ہے تو وہ عوامی جمہوریہ چین ہے۔ چین نے پاکستان کو مشکل ترین لمحوں میں عالمی سطح پر ہی نہیں دفاعی اور داخلی محاذوں پر بھی سہارا دیے رکھا۔ جب بھی امریکی بلاک پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات کی بارش تیز کرتا تو چین عالمی امن وستحکام کے لیے پاکستان کی قربانیوں کی تعریف پر مبنی ایک بیان جاری کر کے پاکستان کی تنہائی کے تاثر کو دور کرتا۔ گزشتہ بیس برس پاکستان کے لیے بہت خوفناک تھے۔ جب اس کے وجود اور بقا کا ٹائٹینک حالات کے آئس برگ سے ٹکرانے سے بال بال بچا۔ ان ماہ وسال نے پاکستان کے پالیسی سازوں کو بہت سبق پڑھائے کیوںکہ تجربہ اور وقت سب سے بڑا اتالیق ہے۔ بس اب اس سبق کو یاد رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس عرصے میں جب امریکا پاکستان کو طعنوں اور دشنام کا نشانہ بناتا تو چین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کر کے اس بین الاقومی ساکھ اور اعتبار بخشتا۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیوںکہ پاکستان پر ٹوٹ پڑنے والے بہت سے عذابوں اور عتابوں کا تعلق پاک چین دوستی اور بالخصوص اقتصادی راہداری سے تھا۔ پاک چین تعلقات صرف چین کی ضرورت ہی نہیں تھے بلکہ یہ خود پاکستان کی دفاع کے لیے بھی لازمی تھے۔ امریکا علاقائی سیاست میں پاکستان کو بھارت کی دُم کے ساتھ باندھنا چاہتا تھا اور بھارت کو بڑا بنانے کے لیے پاکستان کو مختلف حوالوں سے چھوٹا کرنا چاہتا تھا جس میں ایٹمی صلاحیت سے محرومی کا معاملہ بھی شامل تھا۔ پاکستان کے لیے اس انداز اور اسٹائل کے ساتھ بھارت کا ہمنوا بننا ممکن نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان چین کے ساتھ دوستی کی آڑ لے کر اس دبائو کا مقابلہ کر رہا تھا۔ یہ مشکل وقت گزرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے طویل المیعاد اثرات پر بات کرنا تو قبل از وقت ہوگا مگر اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بڑھتا ہوا بگاڑ رکتا محسوس ہو رہا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ دورہ کامیاب رہا اور یہ کہ اب پاک امریکا تعلقات میں پیش رفت کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں حد درجہ بگاڑ پاکستان کے لیے اچھا نہیں تھا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں کوئی بھی ملک کسی ایک بلاک اور ملک کے ساتھ نتھی ہو کر نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں جس جانب نظر دوڑائیں ہر ملک اپنے قومی اور عوامی مفاد میں دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ملک چین کے ساتھ تعلقات رکھے وہ امریکا سے مستقل ناتا توڑ کر بیٹھ جائے۔ باقی ملکوں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے کئی گرم جوش دوست جن میں خود
چین اور سعودی عرب شامل ہیں، بھارت کے ساتھ مضبوط اقتصادی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات میں مستقل خرابی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اُٹھانا پڑ رہا تھا۔ تعلقات اگر مثالی نہ بھی ہوں تو کم از کم ابتری کی طرف مسلسل گامزن نہیں ہونا چاہیے۔ پاک امریکا تعلقات کا بگاڑ چین کے فائدے میں بھی نہیں تھا اور چین کی درپردہ کوشش تھی کہ پاکستان اور امریکا اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری ہو۔ پاکستان چین کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے اور چین ہرگز نہیں چاہیے گا کہ اسے دنیا میں تنہائی کا شکار اور ناقابل قبول شراکت دار کا ساتھ میسر ہو۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات کی بہتری میں چین کا خاموش کردار کہیں نہ کہیں موجود ہوگا۔ اسی طرح چین کی پوری کوشش ہو گی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان منجمد تعلقات کی برف پگھل جائے اور کشمیر سمیت اختلافی معاملات پر ٹھوس پیش رفت ہو۔ عمومی طور ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی بات سے چین کو چیں بہ جبیں ہونا چاہیے تھا مگر چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس کا خیرمقدم کر تے ہوئے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے امریکا سمیت عالمی برادری کے کردار کے حامی ہیں۔ چین کو آم کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے نہیں چین کا مفاد اس میں ہے کہ سی پیک عملی شکل میں ڈھل جائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کا سب سے بڑا علاقائی شراکت دار سفارتی محاذ پر بہتر پوزیشن میں ہو۔ امریکا اور بھارت سے حالت جنگ میں کھڑا پاکستان چین کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پاک امریکا تعلقات کی بحالی میں چین نہ تو نظر انداز ہو سکتا ہے اور نہ پاک چین دوستی کی قیمت پر کوئی نئی کہانی رقم ہو سکتی ہے۔ تاہم پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت بڑھ رہی ہے اور امریکی صدر کے دورہ پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
خطے میں برسوں سے جاری خوں ریز تنازعے کے دو مرکزی کردار اور فریق امریکا اور طالبان دونوں پاکستان آرہے ہیں تو یہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قد اور وزن کا واضح ثبوت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے وفد کا اعلانیہ طور پر پاکستان آنا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ پاکستان کو اس تنازعے میں ایک ثالث اور سہولت کار کے طور تسلیم کیا گیا ہے۔ گویا کہ سترہ برس تک جس ملک کو تنازعے کا مسئلہ اور درد سرقرار دیا جاتا رہا آخر کار اسے علاج اور حل تسلیم کر لیا گیا۔ اُدھر ترکی کے دورے کے دوران ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے رجب طیب اردوان کے سامنے اسلامی ثقافت کی تعمیر نو کی تجویز پیش کی اور اس کے لیے ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا۔ یہ تجویز طیب اردوان کے دل کو بھاگئی اور انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کر اس حوالے سے ایک سہ فریقی معاہدے کی دعوت دی۔ جسے عمران خان نے قبول کیا۔ پاکستان قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی سے پاک ملک بننے کی راہ پر گامزن رہے تو دنیا میں اس کا بڑھتا اور پھیلتا ہو کردار مزید وسعت اختیار کر سکتا ہے۔