لکّی عمران خان

488

وزیراعظم عمران خان امریکا سے جس طرح شاد اور پُر یقین آئے ہیں لگتا ہے اس بے نوا دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صدر ٹرمپ کی مرضی سے ہورہا ہے۔ پیر ومرشد صدر ٹرمپ کی تائیدو حمایت اور پاکستان پر پیار ان کے نزدیک سجدہ شکر بجا لانے کا مقام ہے۔ مدینے جیسی ریاست کا خواب اور ایک لنگڑے کاکروچ پر اس درجہ اعتماد۔ عمران خان کا مدینے جیسی ریاست کا نعرہ زیب داستان ہی ہے۔ بکائو مال کی پیکیج ڈیل جس میں نیکی اور مذہبیت کا بگھار بھی دیا گیا ہے۔ محفل رقص وسرود میں رشد وہدایت کی باتیں۔ ایک طوائف نے اپنے کوٹھے کے باہر تختی پر لکھوا رکھا تھا:
عزت یہاں برائے فروخت ہے۔ مہذب حضرات آنے سے پہلے… اچھا غسل فرمالیں… اور جیبوں میں… اشرفیوں کو اون کی تھیلی میں ڈال کر لائیں۔ لہجوں کو نرم اور جذبات کو گرم رکھیں… اور خیال کرکے… چپلوں میں لگا کیچڑ صاف کرکے آئیں۔ ہمارا فرش، ہمیں رزق دینے کا وسیلہ بنتا ہے… اس کی بے حرمتی، قابل قبول نہیں۔ شراب کوٹھے پر وافر مقدار میں موجود ہے۔ باہر سے خرید کر… وقت کو ضائع نہ کریں۔ دلال کو ایک پائی ادا نہ کرنا… اسے معقول وظیفہ ملتا ہے۔ البتہ باہر رکھے، چندے کے ڈبے میں دل کھول کر پیسہ ڈالیں۔ آپ کا عطیہ نوجوان طوائفوں کی تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے اور مہربانی کرکے رات کے آخری پہر کوٹھا خالی کردیا جائے کیوںکہ فرش کی دھلائی کے بعد تہجد کی نماز ادا کی جاتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی ڈیل میکنگ مخاطب یا مخالف کو باتوں کے استرے سے مونڈنے کا نام ہے۔ بھینس دستیاب نہ ہو تو وہ چوہیا کو بھی دوہنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس دوران وہ چوہیا کو اس طرح آسمان پر چڑھاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کچھ اور ہی شے سمجھنے لگتی ہے۔ وہ اپنے پالے میں لاکر مارتے ہیں۔ عمران خان کے ’’لکّی‘‘ ہونے کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ ان کی حکومت ہماری مدد بھی کررہی ہے اور احترام بھی۔ عمران سے پہلے والی حکومت نہ ہماری مدد کرتی تھی اور نہ احترام۔ اس لیے ہم نے ان کی مدد روک لی۔ سچ ہے با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ صدر ٹرمپ کی جو مدد کرتے تھے اور نہ احترام عمران خان ان کی کوٹھڑی سے ٹی وی اور اے سی نکالنے کے درپے ہیں۔ دوست کا دشمن، دشمن ہوتا ہے۔ نواز شریف کو پتا لگ گیا ہوگا کہ عدالتوں نے کس کے اشارے پر ان کے خلاف فیصلے دیے۔ انہیں کیوں نکالا۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی زوجہ میلانیا بھی عمران خان کی منتظر تھیں۔ میلانیا ٹرمپ۔ سیدھی، لمبی اور پتلی۔ ان کو دیکھیں تو شوخ وچنچل خیالات اور فقرے ذہن میں مچلنے لگتے ہیں۔ احترام کے جذبات ظا ہر کرنے کے لیے پلے بوائے جوگیوں اور سادھوئوں جیسا ماضی درکار ہے۔ عمران خان اس امتحان میں تو پورے اترے لیکن احترام کایہ واٹر لو پاکستان کی امداد کی بحالی تک نہ کھنچ سکا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ عمران خان قرضے مانگنے سے نفرت کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرضے مانگ مانگ کر وہ تھک گئے ہیں۔ جب وہ قرض مانگنے کے عمل کو شرمناک اور بھکاری پن قرار دیتے ہیں تو کتنے خوبصورت لگتے ہیں۔
عمران خان کے دورے کو بلا شک و شبہ انتہائی کامیاب دورہ کہا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے پورچ میں آکر مصافحہ کیا۔ دونوں نے وائٹ ہائوس میں چہل قدمی کرتے ہوئے مسلم قوم کی بے حسی پر غور وفکر کیا۔ اسی دوران صدر ٹرمپ کو ایک کروڑ مسلمانوں کو قتل کرنے کا خیال بھی آیا جسے انہوں نے عمران خان کے ساتھ شئیر کیا۔ عمران خان اس موقع پر اس قدر خوش اور پر اعتماد نظر آرہے تھے جیسے گہرے سمندروں میں سفر کررہے ہوں۔ ان کی کہی ان کہی پر بھی پیار آرہا تھا۔ خون مسلم کا کیا ہے وہ تو بہتاہی رہتا ہے۔ اس کے بہانے میں امریکا کی جنگ میں ہم بھی شریک ہیں۔ ایسے میں کچھ کہنا صدر ٹرمپ کو ناراض کرنے کا باعث ہو سکتا تھا۔ عظیم لیڈر جس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کو ایک بیٹ اور سابق امریکی صدر کی تصویر بھی پیش کی۔ کامیاب دورہ اور کسے کہتے ہیں۔ بیٹ کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن امریکی صدر کی تصویر! یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ امریکا کے ابتدائی صدور کی تصاویر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ابھی کتے کو ناشتہ کرواکے فارغ ہوئے ہوں اور اس کے پیٹو پن پر پریشان ہوں۔
مسحور کن صدر ٹرمپ کو طالبان کے عمامے اتارنے کے لیے طالبان خان کی ضرورت ہے۔ امریکا میں خطاب کے دوران عمران نے امریکیوں سے کہا تھا ’’ہم وہاں پاکستان میں امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔ اس جنگ میں جس مستعدی سے ہم نے افغانوں کا خون بہانے میں امریکا کی مدد کی ہے اس پر ایک ایک امریکی ہمارا شکر گزار ہے۔ اس درجہ شکر گزار کہ اس عظیم جذبے کو وہ ڈالروں سے آلودہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ اب طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے امریکا کو ہماری دو شاخہ زبانوں کی ضرورت ہے۔ جن سے ایک طرف ہم اسامہ بن لادن کو تھپکیاں دیتے رہے اور دوسری طرف امریکا کو مطلع بھی کرتے رہے۔ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کو بھی امریکا ہمارے اسی کامیاب و کا مگار دوغلے پن میں دیکھتا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں امریکا کی جو مخالفت کی تھی ان کے وہ جذبات اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی رحلت فرما چکے ہیں۔ اب وہ طالبان کے نہیں امریکا کے دوست ہیں۔ طالبان کا ساتھ دینے سے کیا ملے گا۔ نہ ڈالر نہ اقتدار کی ضمانت۔ شیخ رشید نے کہا تھا صدر ٹرمپ اور عمران خان میں بہت سی عادتیں مشترک ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں جتنے وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی انہیں یاد نہیں سوائے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے۔ وہ جانتے ہیں امریکا میں اسرائیلی لابی سب سے زیادہ طاقتور لابی ہے۔ عمران خان کو بھی عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ یاد نہیں سوائے طاقت کے مراکز سے بنا کر رکھنے کے۔ امریکا اور آرمی۔ رہا اللہ تو اسے وہ مدینے جیسی ریاست کے نعرے سے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمران خان کے دورے کا خوش کن پہلو مسئلہ کشمیر پر بھارت کے وہم کے قلعے پر کامیاب نقب لگانا ہے۔ بھارت اس خوش گمانی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ اس نے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو دفن کردیا ہے۔ شاید ایسا ہو بھی چکا ہوتا لیکن یہ مجاہدین کشمیر ہیں جنہوں نے اپنی لازوال قربانیوں سے مسئلہ کشمیر زندہ رکھا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے جاپان میں دو ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات میں ان سے کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی بات اور اس کے لیے بھارتی وزیراعظم کی خواہش کا انکشاف، بھارتی میڈیا اور پارلیمنٹ میں جس طرح شور اٹھا، جنونی ہندو جس طرح آہ وبکا کررہے ہیں اور مودی کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں وہ ہندئوں کے اس رائیگانی کے سفر (جسے مسئلہ کشمیر کہتے ہیں) سے جڑے رہنے کی علامت ہے۔ ایک ہم ہیں درماندہ اور پست حوصلہ اپنی قیادت کی بڑی سے بڑی غداری کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیتے ہیں۔ وزیراعظم تصدیق کررہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو شہید کرنے میں پاکستان کی آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد کی لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں سے لے کر عوام تک کہیں احتجاج تو کجا ایک آواز بلند نہیں ہوئی۔ شاید امریکا کے مقابل اپنی قیادت کی بزدلی کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔