دہشت گردی میں کمی ،اور ایک اور دھماکا

304

ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کے روز ایک دھماکے اور فائرنگ میں دس افراد شہیدہوگئے۔ کوٹلہ سیداں کی چیک پوسٹ پر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 2 اہلکاروں کو نشانہ بنایا زخمیوں کی منتقلی کے دوران اسپتال کے مرکزی دروازے پر دھماکا ہوگیا۔ حسب روایت پولیس نے اسے خود کش حملہ قرار دے کر جان چھڑائی اور میڈیا پر کہیں خبر آگئی کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ خود کش حملہ ایک لڑکی نے کیا جبکہ واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ لڑکی اپنے بھائی کے ساتھ علاج کرانے کے لیے آئی تھی اور بھائی سمیت شہید ہوگئی۔ دوسرا بھائی بھی شدید زخمی ہوگیا۔ پولیس افسران کے دعوے کے مطابق لڑکی نے خود کش دھماکا کیا۔ گویا یہ لڑکی سات آٹھ کلو بارودی مواد لیے گھوم رہی تھی۔ واردات کاطریقہ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ پوری منصوبہ بندی کی گئی ۔ پہلے فائرنگ کر کے چیک پوسٹ پر ہلچل مچائی اور جب زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جارہا تھا تو مرکزی دروازے پر پہلے سے موجود لوگوں نے دھماکا کردیا۔ پاکستان میں پولیس اور تحقیقاتی اداروں کا وتیرہ رہا ہے کہ دھماکا ہوتے ہی یہ خبر جاری کروادیتے ہیں کہ دھماکا خودکش تھا۔ کبھی کسی کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ کراچی میں نشتر پارک کا واقعہ ہو یا دس محرم کا دھماکا۔ ملک بھر میں ایسے واقعات میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہی کہا کہ یہ خودکش دھماکا ہے۔ بعد میں تحقیقات میں کچھ بھی ثابت ہوتا رہے کسی نے ابتدائی طور پر جھوٹ بولنے والے افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس واقعے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ڈی پی او سلیم ریاض کی ذہنی سطح بھی جنرل پرویز جتنی محسوس ہو رہی ہے وہ بھی بڑے زعم سے کہا کرتے تھے کہ خودکش حملے کی نشانی یہ ہے کہ اس میں کھوپڑی ملتی ہے۔ ڈی پی او نے بھی کھوپڑی ملنے پر اسے خودکش حملہ قرار دے دیا۔ کیا دھماکے کے مقام کے قریب کھڑے ہونے والے کا سر اڑ نہیں سکتا ایک دھماکے میں تو دو دو سر ملے تھے جبکہ دھماکا ایک ہی ہوا تھا۔ اس کے بعد حملہ آور کا ہاتھ ملنے لگا اور اس کے ذریعے انگلیوں کے نشانات سے دہشت گرد کی شناخت ہونے لگی۔ایک جانب تو یہ دہشت گردی ہو رہی ہے اور دوسری جانب پاک فوج کے افسر تعلقات عامہ میجر جنرل آصف غفور نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکی داخلی صورت حال بہتر ہے۔ اسی وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کی خبر بھی اخبارات میں پہنچی ہوئی تھی۔ ترجمان کا دعویٰ ہے کہ فورسز کی توجہ بلوچستان کی جانب ہے۔ گویا اگر فورسز کی توجہ بلوچستان کی جانب ہو تو دہشگرد ڈی آئی خان میں واردات کردیں گے۔ پاکستانی قوم کو اس سے قبل بھی کئی مرتبہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کردینے ان کی کمر توڑ دینے مکمل صفایا کردینے کی خوش خبریاں دی گئی تھیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادھر یہ اطلاع دی جاتی ہے ادھر ایک دو روز میں دھماکا یا دہشت گردی کی واردات ہو جاتی ہے۔ جنرل پرویز بھی کمر توڑ دینے کے دعوے کیا کرتے تھے اور موجودہ ترجمان جناب آصف غفور بھی یہی اطلاع دے رہے تھے۔ اس مرتبہ تو دہشت گردی کا واقعہ اور دہشت گردی میں کمی کی خوش خبری ایک ہی دن شائع ہوئیں۔ ڈی آئی خان کے واقعے میں ٹی ٹی پی کے زندہ ہونے کی خبر بھی ملی ورنہ اب تک یہی بتایا جارہا تھا کہ ٹی ٹی پی ختم ہو چکی اور اب صرف طالبان افغانستان میں ہیں جن سے امریکا مذاکرات کررہا ہے۔ ترجمان آصف غفور صاحب کے بیان اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے تو یہی لگتا ہے کہ فورسز نے بلوچستان کو فوکس کررکھا ہے اسی وجہ سے سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک روز قبل وزیرستان میں آرمی چیک پوسٹ کے قریب بم حملہ کیا گیا ۔جس میں چار اہلکار زخمی ہوئے۔ یہاں حملہ ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا لیکن پہلے کسی نے تو بم چیک پوسٹ کے قریب پہنچایا ہوگا۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے زیادہ تر دعوے کیے جاتے ہیں ۔ اب تک دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کی تحقیقات مکمل نہیںہوسکی کسی دہشت گرد کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاسکی ۔ایک اہم بات یہ ہے کہ ایسے واقعات میں پہلے مرحلے پر جھوٹ بولنے والے اعلیٰ افسران کے خلاف کبھی کارروائی نہیںہوئی۔ ذرا ڈی پی او سلیم ریاض سے کوئی پوچھے کہ جو لڑکی علاج کے لیے اسپتال پہنچی تھی اسے اور اس کے شہید بھائی کو دہشت گرد کیوں کر قرار دے دیا۔ اس سے قبل بھی ایک لڑکے کو خودکش حملہ آور قرار دیا گیا تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چلائی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ خود دہشت گردی کاشکار ہوا ہے اس کے دھماکے کے مقام پر داخل ہونے سے کچھ لمحہ پہلے دھماکا ہوا پھر وہ اس جگہ داخل ہو کر نشانہ بنا۔ تحقیقاتی ادارے اپنی نا اہلی کا الزام معصوم لوگوں پر لگا کر ان کے پورے خاندان کو رسوا کردیتے ہیں۔ ان کی گرفت کون کرے گا؟