کلبھوشن یادیو شرمندگی اور ندامت کا نشان

558

ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کی امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ عدالت نے کلبھوشن کے جاسوس ہونے کے پاکستانی موقف کو تسلیم کیا ہے اور اس کی رہائی اور سزائے موت کی منسوخی کی بھارتی دلیلیں مسترد کر دی ہیں تاہم پاکستان کو کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس طرح کلبھوشن یادیو نہ صرف پاکستان کی قید میں رہے گا بلکہ پاکستان کے نظام قانون اور انصاف کے تابع اپنے مقدر کے فیصلے کا منتظر رہے گا۔ پاکستان کے لیے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس کی پھانسی سے زیادہ اہم رہی ہے جس طرح بھارت کے لیے زندہ اجمل قصاب مردہ سے زیادہ اہمیت اور فائدے کا حامل تھا۔ بھارت نے زندہ اجمل قصاب کو پاکستان کو بدنام کرنے اور ممبئی حملوں کے ثبوت کے طور پر استعمال اور پیش کیا مگر جب اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی تو پھر الزامات کا یہ رنگ پھیکا پڑتا چلا گیا۔ کلبھوشن یادیو کا نام تین سال سے بھارت کے لیے سُبکی ندامت اور شرمندگی کا باعث بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ سات پردوں میں مستور اور دستانہ پوش خفیہ کردار پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کے کام کی نگرانی پر مامور شخص ایک روز خود چل کر پاکستانی ایجنسیوں کے دام میں آجائے گا۔
بھارت نے دنیا بھر میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے اور خود کو دہشت گردی کا شکار اور مظلوم ملک بنا کر پیش کرنے کے لیے جو اسکرپٹ تیار کیا تھا اس میں اپنی جوابی دہشت گردی کا کوئی نشان باقی چھوڑنے کا تصور بھی محال تھا۔ پاکستان کے ائرپورٹس، جہازوں، دفاعی تنصیبات پر حملے ہورہے تھے اور اس کو پاکستان کی افغان جہادی پالیسی کا شاخسانہ قرار دے کر اصل ہاتھ کی پردہ پوشی کا عمل زوروں پر تھا گویا افغانستان میں امریکا اور ناٹو پر حملے بھی پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کر رہے تھے تو پاکستان کے شہر ودیہات اور دفاعی تنصیبات پر حملے بھی خود ہی پاکستان کر رہا تھا۔ یہ حد درجہ احمقانہ منطق تھی مگر اسے بہت منظم انداز میں پاکستان کے اندر پھیلایا گیا۔ اس مہم کا مقصد بھارت کے خفیہ ہاتھ پر پردہ ڈالنا تھا۔ پاکستان کے اندر بھی کوئی بھی یہ نشاندہی کرنے کو تیار نہ تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار کون ہے؟ طالبان نام کی ایک مبہم اصطلاح عام تھی اور ہر جرم اور ہر دہشت گردی کو اسی ٹوکری میں ڈالا جا رہا تھا۔ پاکستان کا میڈیا اور حکومت بھی ملک میں جاری دہشت گردی کی شناخت اور نام ونسب بیان کرنے سے قاصر تھا اور کبھی کبھار دہشت گردی میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے کہ مبہم سی بات کرکے معاملے کو گول کیا جارہا تھا۔
یہ سار اماحول بھارت نے بہت احتیاط اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کیا تھا کہ دہشت گردی کا سرا اس تک نہ پہنچنے پائے۔ کلبھوشن یادیو کے
کیس میں بھی قدم قدم پر یہ احتیاط روا رکھی گئی تھی۔ وہ ایک حاضر سروس نیوی افسر تھا اور پاکستان میں دہشت گردی کا پروجیکٹ اسے نوکری کے حصے کے طور پر تفویض کیا گیا۔ اسے حسین مبارک پٹیل کا مسلمان دیا گیا اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں جہاں اور بہت سے بھارتی انجینئر اور مزدور کام کررہے تھے میں ایک کاروباری شخص کے طور بٹھایا گیا۔ یہاں وہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو آپریٹ کرتا رہا۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری تک پاکستان اپنے ہاں بھارتی دہشت گردی کے ثبوت عالمی دنیا اور فورم میں پیش کرنے سے قاصر تھا۔ اس کے برعکس بھارت اپنے ہاں ہر واقعے پر لشکرطیبہ اور جیش محمد کے ملوث ہونے کا راگ الاپ کر دنیا کو اپنی مظلومیت کا تاثر دیتا تھا۔ کلبھوشن کی گرفتاری خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کی تاریخ میں ایک نیا انوکھا واقعہ ہے۔ پاکستان کی خفیہ اداروں نے برسوں کی محنت کے بعد ایسا جال بُننے میں کامیابی حاصل کی کہ کلبھوشن یادیو کو چاہ بہار سے پاکستان کی سرحد عبور کرکے اندر آنا پڑا۔ یہ کہانی جب سامنے آئے گی تو دنیا پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی مہارت پر دنگ رہ جائے گی۔
کلبھوشن یادیو پاکستانی حدود میں بھارتی پاسپورٹ کے ساتھ پکڑا گیا تو بھارتی منصوبہ سازوں کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے ابتدائی ایام میں خاموشی سے اسے واپس لے جانے کے لیے جانگسل محنت کی۔ نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دووال اپنی اس ہزیمت پر جزبر ہوئے اور سارا زور کلبھوشن کی رہائی پر صرف کیے رہے مگر پاکستان نے کلبھوشن کو میڈیا میں اس کے اعتراف جرم کے ساتھ پیش کر دیا اور یوں پاکستان کے ہاتھ دنیا کو دکھانے کے لیے بھارت کی دہشت گردی کا سب سے بڑا ثبوت آگیا تھا۔ اس جیتے جاگتے ثبوت نے بھارت کے لیے عالمی سطح پر شرمندگی اور ندامت کا سامان کرنا شروع کیا۔ بھارت نے دنیا کو ہر ممکن طریقے سے باور کرانے کی کوشش کی کہ کلبھوشن عام شہری یا نیوی کا ریٹائرڈ افسر ہے جس کا ریاست وحکومت سے کوئی تعلق نہیں مگر بھارت کا ہر دعویٰ وقت کی میزان پر تُل کر غلط ثابت ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بھارت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کا راستہ اپنا لیا۔ پاکستان کا کیس تو پکے ثبوتوں کے باعث مضبوط تھا ہی مگر ریاست نے یہاں ایک ماہر وکیل خاور قریشی کی خدمات حاصل کیں۔ جنہوں نے اپنے دلائل اور موثر انداز بیاں کے باعث پاکستان کے مضبوط کیس کو مضبوط تر بنا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کیس میں بھارت کی تمام خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی دہشت گردی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اب حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تیز رفتاری سے دنیا کو یہ باور کرائے کہ مظلومیت کی کھال میں حقیقت میں ایک ظالم چھپا بیٹھا ہے جس نے خطے کو دہشت گردی کا شکار بنانے کے لیے چالاکی اور مہارت کے ساتھ اپنا گھنائونا کردار ادا کیا ہے۔