بی آر ٹی، تحریک انصاف کا امتحان

470

پشاور میں جاری میٹرو بس پروجیکٹ المعروف جنگلا بس کو بجا طور پر تحریک انصاف کی انتظامی صلاحیتو ں کا آئینہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پشاور میں اس پروجیکٹ کو بس ریپڈ ٹرانزٹ کا نام دیا گیا مختصرا ًسے بی آرٹی کہا جاتا ہے ۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں اس بارے میں نہ صرف مسلسل غیر حقیقی دعوے کرتی رہی ہیں بلکہ صرف اس ایک منصوبے ہی کا اس جیسے دیگر صوبوں میں جاری منصوبوں سے موازنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس منصوبے پر اٹھنے والی لاگت ان منصوبوں کے مقابلے میں دگنی سے بھی زاید ہوچکی ہے اور ابھی تک یہ منصوبہ مکمل ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ صرف یہی نہیں کہ اس منصوبے کی لاگت کہیں زاید ہے بلکہ اس پر ہونے والے کام کو بھی انتہائی غیر معیاری قرار دیا گیا ہے ۔ تازہ رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو اس کے ایک حصے پر لگائی جانے والی لوہے کی بھاری پلیٹیںنیچے ایک کار پر گر گئیں جس سے کار مکمل طور پر تباہ ہوگئی ۔ یہ تو اس کار کے ڈرائیور کی خوش قسمتی تھی کہ وہ محفوظ رہا ۔ اس سے قبل بی آر ٹی کی ایک آزمائش کے دوران ایک خاتون بھی جاں بحق ہوچکی ہیں ۔ بی آر ٹی کی وجہ سے پورا پشاور شہر شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ ساری اہم سڑکیں کھدی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پشاور کے شہریوں کو آمدو رفت میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں جو بارشوں میں حادثات کا پھندا ثابت ہوتے ہیں ۔ ان کھدی ہوئی سڑکوں کی بناء پر جو حادثات روز رونما ہورہے ہیں ، ان کا تو کہیں پر کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے ۔ یہ دنیا کا شاید واحد پروجیکٹ ہے جس پر فزیبیلیٹی رپورٹ مکمل کیے بغیر ہی کام شروع کردیا گیا اورنتیجہ یہ نکلا کہ اس میں آئے دن تبدیلی کرنا پڑتی ہے ۔ کہیں کنٹونمنٹ کے علاقے میں پتا چلتا ہے کہ جس علاقے میںپل بنائے گئے ہیں وہ رہائشی عمارتوں سے صرف ایک ہاتھ کے فاصلے سے گزر رہے ہیں جس سے علاقہ مکینوں کی نہ صرف پرائیویسی متاثر ہوگی بلکہ ان کی دھوپ اور ہوا بھی رک جائے گی ۔ کبھی پتا چلتا ہے کہ جو بسیں درآمد کی گئی ہیں ، ان کے دروازے پلیٹ فارم کے دوسرے جانب کھلنے والے ہیں اور اس میں عملی طورپر مسافر سوار ہی نہیں ہوپائیں گے ۔ کبھی پتا چلتا ہے کہ بس اسٹیشن اتنے تنگ بنائے گئے ہیں کہ وہاں سے بس گزر ہی نہیں سکتی ہے ۔ کبھی پتا چلتا ہے کہ زمیں دوز راستوں سے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے ۔ اس پروجیکٹ کے لیے قرض فراہم کرنے والے ادارے ایشیائی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا ہے کہ بی آر ٹی کے اسٹیشن 10 ، 12 ، 15 اور 26 پر بسیں ایک دوسرے سے ٹکراسکتی ہیں کیوں کہ لین کی چوڑائی کم از کم معیار ساڑھے چھ میٹر سے کم ہے ۔ اسی طرح بی آر ٹی کے بس اسٹیشنوں پر بسیں کھڑی کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 22 ایسی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے جن کو فوری طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ بصورت دیگر اس سے مسافروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ بی آر ٹی منصوبے کو گزشتہ عام انتخابات سے قبل مکمل کرنے کے لیے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے منصوبے کے ٹھیکے دار کو 25 فیصد رقم بونس کے طور پر ایڈوانس ادا کی ۔ ٹھیکیدار نے یہ رقم تو وصول کرلی مگر منصوبہ ابھی تک ادھورا ہے ۔ ا س منصوبے کی تکمیل کے لیے چار مرتبہ تاریخ کا اعلان کیا جاچکا ہے مگر ابھی تک کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ تحریک انصاف حکومت کا یہ شاہکار منصوبہ کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا ۔ چونکہ یہ منصوبہ تحریک انصاف کا ہے اس لیے کوئی سوموٹو نہیں ہے ، کوئی نیب نہیں ہے جو اس کی تحقیقات کرے کہ یہ منصوبہ اتنی زاید لاگت کا کیوں بنایا جارہا ہے اور اب تک مکمل کیوں نہیں ہوا ہے ۔ اس کے غیر معیاری کام کا ذمہ دار کون ہے اور بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل کے بعد اگر مسافروں کو نقصان پہنچا تو اس کا ذمے دار کون ہوگا ۔ ملک میں یہ ایک عجیب روایت ہے کہ بسرسر اقتدار حکومت کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرتی رہے ۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے اس سلسلے میں کوئی حرکت ہی نہیں کرتے اور جیسے ہی حکومت رخصت ہوتی ہے ، نئی حکومت کے آتے ہی ساری فائلیں کھل جاتی ہیں ۔ گزشتہ حکومت نے چاہے کوئی کام اچھا ہی کیا ہو ، مگر اس میں شامل بیوروکریسی سمیت ہر فرد کی ٹھیک ٹھاک چھترول ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اب ہر منصوبے میں شامل افسران کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑا منصوبہ ان کے کیریئر کا آخری منصوبہ ہے ، اس لیے اس میں جتنا لوٹ سکتے ہو، لوٹ لو اور پھر ملک سے باہر منتقل ہو جاؤ ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ملک میں کسی بھی پروجیکٹ پر کسی چیک اور بیلنس کا کوئی نظام موجود ہی نہیں رہا ۔ جو الزامات بی آر ٹی پر آرہے ہیں ، گزشتہ دور حکومت میں ایسے ہی الزامات نیو اسلام آباد ائرپورٹ کی تعمیر کے دوران سامنے آئے تھے مگر اس وقت بھی ہر طرف خاموشی تھی کہ ائرپورٹ کی تعمیر کے ٹھیکیدار مریم نواز کے سمدھی تھے ۔ بہتر ہوگا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے نشاندہی کی جانے والی خامیوں کو ابھی سے دور کرلیا جائے ۔ اس پورے پروجیکٹ کی پہلے دن سے لے کر اب تک ہونے والی خامیوں اور بدعنوانیوں کے الزامات کی تحقیقات کی جائے اور اس کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں ۔ عمران خان جب گزشتہ حکومتوں پر الزامات لگارہے ہوتے ہیں اور دعویٰ کررہے ہوتے ہیں کہ وہ کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑیں گے تو ذرا اپنے گھر کی بھی خبر لیں ۔ اگر عمران خان نے بی آر ٹی کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کروالی تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے دعوے میں مخلص ہیں۔