مذہب، جمہوریت اور بلاول کی تعلیم و تربیت

652

پاکستان کے اکثر سیاست دانوں کے بیانات پڑھ کر خیال آتا ہے کہ یہ سیاست دان نہیں۔ Stunted children ہیں۔ کم روحانی، اخلاقی اور ذہنی غذا کی وجہ سے ان کا روحانی، اخلاقی اور ذہنی ارتقا نہیں ہوسکا۔
اس کی تازہ ترین مثال آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول زرداری کی گفتگو ہے۔ اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں اس بات کا اضافہ چاہتے تھے کہ عمران خان نے حال ہی میں توہین صحابہؓ کا ارتکاب کیا ہے۔ خبر کے مطابق بلاول زرداری نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ سیاسی معاملات میں مذہب کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس پر مولانا نے سوال کیا کہ کیا آپ جمہوریت کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ بلاول نے کہا کہ وہ جمہوریت کو استعمال کرنے دیں گے مگر مذہب کو نہیں۔ ایک مرحلے پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم مڈٹرم انتخابات کی طرف جائیں گے اور اگر مارشل لا آگیا تو ہم اس کا بھی مقابلہ کریں گے۔ اس موقع پر بلاول نے کہا کہ وہ ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔
مولانا فضل الرحمن بظاہر سرتاپا مذہب ہیں مگر ان کے لیے مذہب اور صحابہؓ کی حرمت بس اتنی ہی اہم ہے کہ بلاول زرداری نے کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں مذہب کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تو مولانا فضل الرحمن فوراً مذہب کو چھوڑ کر جمہوریت پر راضی ہوگئے۔ اگر اہل مذہب خود مذہب کی یہ ’’اوقات‘ مقرر کریں گے تو بلاول زرداری جیسے سیکولر لوگوں کی جرأت بڑھے گی۔ اس امر سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ مولانا فضل الرحمن کا اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ عمران خان نے صحابہ کی شان میں گستاخی کی تھی بلکہ مولانا صرف اس گستاخی کو سیاسی مقاصد کے لیے بروئے کار لانا چاہتے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ہرگز بھی یہ نہ کہتے کہ آپ مذہب کو حکومت کے خلاف بروئے کار نہیں آنے دیتے تو جمہوریت ہی کو بروئے کار آنے دیں۔ اللہ اکبر۔
ویسے بلاول زرداری کی تعلیم و تربیت کے لیے عرض ہے کہ انہیں اپنے جس نانا پر بڑا ناز ہے وہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے میں سب سے زیادہ ماہر تھے۔ بھٹو صاحب کا نعرہ تھا۔ اسلام ہمارا دین، جمہوریت، ہماری سیاست اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ یہ نعرہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ایک بڑی مثال ہے۔ ارے بھائی جب آپ دین کے قائل اور پابند ہی نہیں ہیں تو اپنے سیاسی نعرے میں دین کو پہلے نمبر پر کیوں کھڑا کررہے ہیں؟ آپ صاف کہیں ہماری سیاست بھی لادین ہے اور ہماری معیشت کا ماڈل بھی لادینیت کا عکاس ہے۔ مگر نہیں قوم کو بتانا ضروری ہے کہ اسلام بھٹو اور ان کی جماعت کا دین ہے۔ یہ ہے مذہب کے نام پر اصل سیاست۔
بھٹو صاحب ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے بھی قائل تھے۔ یہ نعرہ بھٹو صاحب کی جہالت کا اشتہار تھا۔ اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک ہی نہیں تھی۔ اسلام ایک خدا مرکز یا God Centirc نظام تھا اور سوشلزم خدا کے تصور سے بھی الرجک تھا۔ سوشلزم کہتا تھا مذہب عوام کی افیون ہے۔ مگر بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کی جہالت کے سکے کو خوب چلایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام پاکستان کے عوام کے لیے اتنا اہم ہے کہ اگر بھٹو صاحب سوشلزم کے ساتھ اسلامی نہ لگاتے تو پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت بھٹو صاحب اور ان کی جماعت پر تھوک دیتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح سیاست میں مذہب کے استعمال کی ایک اور بڑی مگر بھونڈی مثال ہے۔
بھٹو صاحب کی زندگی میں نہ کہیں خدا تھا نہ مذہب تھا۔ چناں چہ جس کی زندگی میں خدا اور مذہب ہی نہ ہو اس کے لیے ’’ختم نبوت‘‘ کا تصور کیسے اہم ہوتا؟ مگر بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ پاکستان کے عوام کے مذہبی جذبات کی تسکین کا اہتمام کریں گے۔ چناں چہ انہوں نے محض سیاسی فائدے کے لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور بلاشبہ اس اقدام سے بھٹو صاحب کو بڑا سیاسی ہوا۔ بلاول صاحب یہ ہوتا ہے مذہب کا سیاسی استعمال۔
بھٹو صاحب اپنی شراب نوشی کے لیے بدنام تھے۔ ایک بار یہ مسئلہ ان کے لیے اتنا اہم ہوا کہ انہوں نے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں شراب پیتا ہوں لوگوں کا خون نہیں پیتا۔ حالاں کہ تاریخ شاہد ہے کہ بھٹو اپنی اصل میں ایک فاشسٹ تھے اور انہوں نے بہت سے لوگوں کا خون بھی پیا۔ مگر یہاں اصل بات یہ ہے کہ بھٹو شراب خور تھے مگر سیاسی فائدے کے لیے انہوں نے پورے ملک میں شراب پر پابندی لگادی۔ کوئی بلاول زرداری کو بتائے کہ یہ ہوتا ہے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال۔
بھٹو کو اسلام ہی سے دلچسپی نہ تھی تو انہیں پاکستانی مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل کے دن سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی مگر ملک میں جمعے کی تعطیل کا عوامی مطالبہ موجود تھا۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے محض سیاسی فائدے کے لیے اتوار کی تعطیل ختم کردی اور جمعے کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کردیا۔ بلاول زرداری یہ ہوتا ہے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال۔
بھٹو کو اس بات کا ’’کریڈٹ‘‘ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ’’امت‘‘ کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور لاہور میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہ اجلاس منعقد کیا۔ مگر امت کا تصور ایک اسلامی تصور ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں بھی بھٹو نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے مذہب کو استعمال کیا۔ لاہور میں ہونے والی اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر جو ’’سرکاری ترانہ‘‘ تیار کیا گیا تھا اس کے ابتدائی بول یہ تھے۔
ہم تابہ ابد
سعی و تغّیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں
دین ہمارا دین مکمل
استعمار ہے باطلِ ارذل
خیر ہے جدوجہد مسلسل
عنہ اللہ، عنہ اللہ
اللہ اکبر، اللہ اکبر
یہ پورا ترانہ ’’مذہب‘‘ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس طرح بھٹو نے ایک سیاسی اجتماع کے موقع پر مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بلاول زرداری یہ ہوتا ہے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال۔
اب کچھ بلاول کی ’’والدہ ماجدہ‘‘ اور ’’والد بزرگوار‘‘ کا بھی ذکر ہوجائے۔ بے نظیر بھٹو مغرب میں پلی بڑھی تھیں۔ انہیں مغربی لباس ہی پسند تھا مگر پاکستان کے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے لیے وہ دوپٹے اور چادر کا خاص اہتمام فرماتی تھیں۔ بلکہ ایک زمانے میں تو ان کے ’’دست مبارک‘‘ میں ’’تسبیح‘‘ بھی موجود ہوتی تھی۔ اسی طرح بے نظیر نے اپنا ظاہری حلیہ تقریباً ایک ’’ملانی‘‘ والا بنایا ہوا تھا۔ بلاول زرداری یہ ہوتا ہے مذہب کا سیاسی استعمال۔ بے نظیر بھٹو کا مذہبی علم کتنا تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ ایک بار جلسے سے خطاب کررہی تھیں کہ پاس کی مسجد سے اذان شروع ہوگئی۔ بے نظیر خاموش ہوگئیں اور کہنے لگیں ’’اذان بج رہا ہے‘‘۔ ارے بھائی جب آپ مذہب ہی کو نہیں مانتے تو کون سی اذان اور کہاں کی اذان۔ آپ تقریر جاری رکھیں۔ مگر بے نظیر بھٹو کو معلوم تھا کہ انہوں نے اذان کے دوران بھی تقریر جاری رکھی تو ان کا پورا سیاسی کیریئر خطرے میں پڑ جائے گا۔ بلاول زرداری یہ ہوتا ہے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی زندگی میں کہیں مذہب موجود نہیں مگر بے نظیر بھٹو تواتر کے ساتھ ’’پیروں‘‘ اور ’’بابوں‘‘ کے پاس حاضری دیتی تھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ ان کی سیاسی تقدیر کیسی ہے؟ ارے بھئی جب آپ مذہب ہی کے قائل نہیں تو یہ مذہبی پیر اور بابا کہاں سے آگئے؟ بلاول زرداری یہ ہوتا ہے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال۔
پاکستان کے تمام سمجھ دار لوگ اے آر وائی کو اسٹیبلشمنٹ کا چینل سمجھتے ہیں چناں چہ انہیں کسی مسئلے پر جب یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی لائن کیا ہے تو وہ فوراً اے آر وائی لگاتے ہیں۔ اتفاق سے جمعرات کی رات اے آر وائی کا ایک اینکر عادل عباسی فرما رہا تھا کہ بلاول نے مذہب اور سیاست کو الگ رکھ کر بڑا اچھا کیا، مستقبل کی سیاست پر اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
عادل عباسی کا فقرہ کچھ اور تھا مگر اس کا مفہوم یہی تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ویسے تو اسٹیبلشمنٹ اور بلاول ایک دوسرے کے حریف اور دشمن ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کے سلسلے میں ان کے مابین کامل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو بلاول کا فقرہ ہو یا عادل عباسی کا جملہ دونوں آئین پاکستان پر تھوکنے کے مترادف ہیں۔ اس لیے کہ آئین پاکستان میں سیاست سمیت ملک کی ہر چیز اسلام کی پابند ہے۔ مذہب اور سیاست کی علیحدگی ایک سیکولر تصور ہے اور پاکستان ابھی تک سیکولر ملک نہیں ہے۔ چناں چہ یہاں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی بات اسلام اور پاکستان سے غداری ہے۔
یاد آیا جمہوریت کی بات تو رہ ہی گئی۔ بلاول کو جمہوریت کی بڑی فکر ہے حالاں کہ بھٹو، بے نظیر، آصف زرداری، بلاول اور خود پیپلز پارٹی نہ جمہوری تھے، نہ ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کل بھی بھٹو خاندان کی باندی تھی، آج بھی باندی ہے اور مستقبل میں بھی اس کا یہی Status رہے گا۔ ایسی جماعت کا سربراہ جمہوریت کو بچانے کی بات کرتا ہے تو ہنستے ہنستے آدمی کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ روحانی، اخلاقی اور ذہنی اعتبار سے Stunted Childrens واقعتا بڑا رُلاتے ہیں۔