وزیراعظم عمران خان نے تو لمحوں میں پاکستانی قوم کا مسئلہ حل کردیا انہوں نے بتایا کہ روپیہ گرنے یا روپے کی قدر میں کمی کی وجہ منی لانڈرنگ ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ زرداری خاندان نے پیسہ چوری کرکے باہر بھجوایا ہے جس کی مثال جعلی اکائونٹس کیس ہے۔ زرداری فیملی اور اومنی گروپ سے جعلی اکائونٹس کی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے نواز شریف اور ان کے خاندان کا حوالہ دیا کہ ہل میٹل اور حدیبیہ مل کا پیسہ پاکستان سے باہر گیا۔ وزیراعظم کے اس انکشاف پر قوم کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی ناقدری کا سبب بتا دیا۔ لیکن چونکہ ان کے دعوے کی پشت پر ٹھوس دلائل نہیں اس لیے نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں، آصف زرداری صاحب نے بھرپور منی لانڈرنگ کی ان کے دفاع کی ضرورت نہیں لیکن یہ کام انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیا ہوگا جو 2013ء میں ختم ہوگیا۔ وہ 2008ء میں صدر بنے، آتے ہی ہاتھ کھل گیا ہو یا ایک سال بعد لیکن ان کے سارے کیسز اور منی لانڈرنگ 2008ء سے 2013ء کے عرصے کی ہوگی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے کیسز اس سے پہلے کے ہیں اور 2013ء سے 2018ء کے درمیان کے ہیں لیکن اتنی زبردست منی لانڈرنگ کے باوجود ڈالر کو پر نہیں لگے۔ یہ ڈالر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے باوجود ایک سو روپے کے لگ بھگ تیرتا رہا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈالر 60 سے 64 روپے کے درمیان رکا ہوا تھا جو مصنوعی طور پر تھا۔ لیکن اس مصنوعی کام میں حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر امدادی رقوم سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈالر کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔ تاہم مشرف حکومت جاتے ہی دو ماہ میں ڈالر 100 روپے تک پہنچ کر 90 کے قریب آگیا اور پورے پانچ سال میں یہ شرح رہی۔ 2013ء سے 2017ء تک بھی ڈالر 109 اور 110 روپے کا رہا۔ 2017ء اور 2018ء بھی ڈالر اسی طرح رہا یہ لوگ اپنے دور حکومت میں منی لانڈرنگ کر رہے تھے لیکن ڈالر اڑان نہیں بھر رہا تھا۔ اب صرف دس ماہ میں بلکہ عمران حکومت کے آنے کے بعد 8 ماہ تک ڈالر اسی طرح رہا لیکن صرف دوتین ماہ میں ایسی لمبی لمبی چھلانگیں لگائیں کہ 164 روپے تک پہنچ گیا۔ شروع میں عالمی کساد بازاری کو الزام دیا گیا لیکن اب تو ہر ایک کے پاس ساری دنیا کے زرمبادلہ کی شرح موجود ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی روپیہ مستحکم، افغانی کرنسی پاکستان سے زیادہ مستحکم 30 سال سے جنگ زدہ ملک ہے۔ بنگلا دیش کی کرنسی پاکستان سے زیادہ مستحکم، ان ممالک میں تو کوئی کرپشن ہی نہیں ہے گویا۔ سارے حکمران حاجی اور مصلّے پر بیٹھے رہتے ہیںیہ تو وزیراعظم کو بتانا ہوگا کہ اب ان کے دور میں کون منی لانڈرنگ کررہا ہے۔ یہ ڈالر آصف زرداری کی منی لانڈرنگ کے دس سال بعد کیوں اڑنے لگا۔ حدیبیہ اور ہل میٹل کا پیسہ آج تو باہر نہیں گیا یہ پہلے کا باہر گیا ہوا ہے تو پھر ڈالر آپ کے دور میں کیوں اڑتا جارہا ہے۔
وزیراعظم اس بات کی کیا توجیح پیش کریں گے کہ آئی ایم ایف نے جب سے ہدایت کی ہے کہ ڈالر اور روپے کی آزاد چھوڑا جائے خرابیاں اس وقت شروع ہوئی تھیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر مان نہیں رہے تھے اور وزیراعظم سمجھ نہیں رہے تھے تو اچانک گورنر اسٹیٹ بینک کو فارغ کرکے آئی ایم ایف کا نمائندہ گورنر بنایا گیا۔ اس کے بعد تو گویا ڈالر راکٹ بن گیا۔ پہلے تو وزیراعظم نے گورنر اسٹیٹ بینک کو ڈانٹا تھا کہ انہوں نے مجھے ڈالر کی شرح تبادلہ برھانے کی اطلاع نہیں دی، انہیں ٹی وی کے ذریعے پتا چلا کہ ڈالر کی شرح بڑھ گئی ہے اب جب سے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک مداخلت نہ کرے تو وہ مائی باپ کے گورنر اسٹیٹ بینک کو کچھ نہیں کہہ رہے۔ چونکہ زرداری اور شریفوں کا کھاتہ کھلا ہوا ہے اس لیے مزے سے کہہ دیا کہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے روپیہ گر گیا ہے۔ وزیراعظم کے بیان کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو تضاد کا شاہکار ہے۔ فرماتے ہیں کہ قوم منی لانڈرنگ کرنے والوں سے مجرموں جیسا سلوک کرے اور ساتھ ہی یہ کمال بھی بیان کررہے ہیں کہ ہم نے چوری کرنے والوں کو پارلیمنٹ میں تقریروں کی اجازت دے دی دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ ہاں دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ منتخب ارکان اسمبلی کو کوئی لفظ استعمال کرنے پر پابندی کا سامنا ہو۔ اور لفظ بھی گالی ہے نہ غیر پارلیمانی۔ وزیراعظم بتائیں کہ وہ بار بار عوام سے کیوں مطالبہ کررہے ہیں کہ چوروں، ڈاکوئوں جیسا سلوک کرو اور خود وی آئی پی سلوک کررہے ہیں۔ کیا وہ عوام اور ان کے رہنمائوں کے درمیان فساد کرانا چاہتے ہیں جو لگ ان کو ماریں، پیٹیں یا گریبان سے پکڑیں۔ ضروری تو نہیں کہ وہ عوام ہوں کسی دن بھی سلیکٹڈ لوگوں کا گروہ نکل کر مار پیٹ کر سکتا ہے اسے عوام کا نام دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے بے نامی اکائونٹس کو بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔ جبکہ بے نامی اکائونٹس میں جو رقم ہے وہ تو موجود ہے کہیں باہر بھی نہیں گئی اسے پیسہ چھپانے کی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ ناجائز رقوم کو ٹھکانے لگانے کے لیے دوسروں کے نام سے اکائونٹس کھولے جاتے ہیں ان بے نامی اکائونٹس سے ڈالروں کا تعلق عمران خان ہی ثابت کرسکتے ہیں۔ جہاں تک لفظ سلیکٹڈ پر چراغ پا ہونے کی بات ہے تو اس کے لیے بھی وزیراعظم نے جو باتیں کی ہیں وہ ان کی اپنی پوزیشن کو متاثر کررہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی آمریت کی نرسریوں میں مینو فیکچرڈ اور این آر او لینے والے سیاستدان سلیکٹڈ کی بات کررہے ہیں۔ جناب عمران خان صاحب اپنے دائیں بائیں نظر ڈالیں فوجی آمریت کی نرسریوں کے مینوفیکچرڈ وزرا کی فوج ہی نظر آئے گی۔ اب تو یہ لوگ خود نرسری سے بھی بڑھ کر باغ بن چکے ہیں۔ پوری کابینہ ایسی نرسری کے کانٹے دار درختوں سے بھری ہوئی ہے اور وہ چند لوگوں کو مطعون کررہے ہیں ان کا یہ بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ ہاں اگر میں کسی کا سلیکٹڈ ہوں تو آپ لوگ بھی تو ہیں۔ یہ نہایت بچگانہ دلیل ہے۔ اگر وہ اس لفظ کو حقیقت سے دور سمجھتے ہیں تو اس پر خاموش رہیں حقائق خود سامنے آجائیں گے۔ وہ تو خود کو زانی کہنے والوں کو نفیس کہتے ہیں۔ کم ازکم سلیکٹڈ اتنا برا نہیں جتنا ایم کیو ایم والوں کا کہا ہوا لفظ تھا۔ کیا وہ ایم کیو ایم کے الزامات سے متفق تھے اور سلیکٹڈ سے متفق نہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔
وزیراعظم صاحب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ ڈالر تو منی لانڈرنگ کی وجہ سے مہنگا ہو رہا ہے لیکن پیٹرول کی قیمتیں، گیس کے نرخ، بجلی مہنگے کرنے کا بھی کیا اسی سے تعلق ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا، ٹیکس کی حد کم کرنا، ریلویز اور ہوائی جہاز کے کرایے بڑھانا، اشیائے خورونوش مہنگی کرنا ان کا بھی تعلق ڈالر اور منی لانڈرنگ سے ہے۔ پانی کے منصوبے نہ بنانا اور بنے ہوئے منصوبوں کے لیے رقم نہ رکھنا ڈالر اور منی لانڈرنگ سے تعلق رکھتا ہے یا اس کا کوئی سلیکٹڈ سبب ہے۔ دراصل سارا نظام آمریتوں کی نرسری والے چلا رہے ہیں یا آئی ایم ایف والے۔ وزیراعظم کی پارٹی کا ایک آدمی تھا، اسد عمر، اسے بھی کنارے لگا دیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت حکمرانی فوجی آمریتوں کی نرسریوں میں پلنے والوں کی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ وزیراعظم اپنی ناکامی اور نااہلی کا الزام دوسروں پر نہ ڈالیں اگر اصلاح کرسکتے ہیں تو کر ڈالیں ورنہ راستہ دیں۔شہباز شریف نے بھی مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کردیا ہے اور لوگ بھی اس جانب مائل ہو رہے ہیں۔ جمہوریت میں بار بار انتخابات سے تبدیلی آ ہی جاتی ہے نعروں سے نہیں۔