اصغر خان کیس ، ایف آئی اے کی ناکامی یا!!!

669

پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے مشہور زمانہ اصغر خان کیس بند کرنے کی سفارش کر دی ۔۔۔ اس کیس کو بند کرنے کا جو سبب بتایا گیا ہے وہ بھی بڑا دلچسپ ہے ۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بنکوں کا ریکارڈ نہیں مل رہا ۔ کوئی شخص رقم لینے کا الزام تسلیم نہیں کر رہا ۔ اہم گواہوں کے بیانات میں جھول اور تضادات ہیں معاملہ 25 سال پرانا ہے ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ فوجداری کارروائی ہو سکے ۔ پاکستانی عدالتی تاریخ کا ایک اور مذاق سامنے آ گیا ۔ یہ مقدمہ 25 برس تک پہنچا کیوں؟ اتنے سنگین الزامات تھے عدالت عظمیٰ نے 1990ء کے انتخابات میں پیسہ دینے کے معاملے پر سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا ۔ ایف آئی اے کی رپورٹ در اصل سونے پر سہاگہ ہے ۔ اس مقدمے کو داخل ہوتے ہی 25 برس نہیں گزر گئے تھے بلکہ جب یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا اس وقت تمام ریکارڈ حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ یہ دوسرا اہم مقدمہ ہے جس میں طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس قسم کے عذر پیش کیے گئے ہیں ۔ اس سے قبل احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمے کو اس لیے خارج کیا کہ ان کے خلاف جو ثبوت پیش کیے گئے تھے وہ فوٹو کاپی پر مشتمل تھے اور فوٹو کاپی ثبوت نہیں ہوتی ۔ اس عذر کو تسلیم کر لیا گیا اور مقدمہ بند کر دیا گیا ۔ کسی نے احتساب عدالت کے ان ججوں کا احتساب نہیں کیا ۔ جنہو ں نے مقدمات سماعت کے لیے منظور کیے برسوں ان کی پیشیاں ہوتی رہیں اور پھر 17 برس بعد پتا چلا کہ فوٹو کاپی ثبوت نہیں ہوتی ۔ اب نیا تماشا سامنے آیا ہے۔ ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ سیاستدانوں نے رقم وصول کرنے کی تردید کی ہے ۔۔۔ تو ایف آئی اے کے خیال میں ان سیاست دانوں کو رقم وصول کرنے کا الزام قبول کر لینا چاہیے تھا ۔ دنیا میں کون سا ملزم اقبال جرم کسی ثبوت کے بغیر کر ڈالتا ہے ۔ اس پر ثبوتوں کا بوجھ ہوتا ہے اس کے سامنے گواہ ہوتے ہیں نا قابل تردید دستاویزات ہوتی ہیں تو پھر وہ عدالت کے رو برو تسلیم کرتا ہے کہ میں نے فلاں جرم کیا ۔ ایف آئی اے اسے سیاستدانوں پر ڈال رہی ہے اپنی نا اہلی کا اعتراف کیوں نہیں کر لیتی کہ ہم ثبوت لانے میں ناکام رہے ۔ اگر ایف آئی اے کے پورے بیان کو دیکھا جائے تو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں اس کی ڈوری کہیں اور سے ہلائی گئی ہے ۔ ہر مقدمے میں ملزم صحت جرم سے انکار کرتا ہے ۔ میاں نواز شریف بھی صحت جرم سے انکار کرتے رہے انہیں سزائیں سنائی جار ہی ہیں ۔ انور مجید اور عبدالغنی نے بھی جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں ۔ ہر مقدے میں گواہوں کے بیانات میں تضادات ہوتے ہیں ۔ ان تضادات میں سے جرح کے نتیجے میں حقائق برآمد کرنا وکیلوں کا کام ہے۔ ایف آئی اے کے چالاک لوگ اوریہ ہر جگہ پہنچ جانے والے کارندے اس کیس میں کہاں رہ گئے تھے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اصل معاملہ رقم وصول کرنے والوں کے انکار یا گواہوں کے بیانات میں تضادات نہیں اصل معاملہ بنکوں سے رقم نکال کر سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کا ہے ۔ رقم نکالنے والوں اور بنک والوں سے کیا پوچھ گچھ کی گئی اس کا بھی تو ایف آئی اے کوئی حساب دے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مقدمہ 25 برس پرانا ہو گیا ہے ۔ میاں نواز شریف آصف زرداری وغیرہ کے خلاف بھی اتنے پرانے ثبوت جمع کر لیے گئے ۔ اگر بھٹو صاحب کے قتل کا معاملہ 38 برس بعد تبدیل ہو سکتا ہے تو ایف آئی اے بنکوں کا ریکارڈ کیوں نہیں لا سکی ۔ گویا فائل بند کرنے کی سفارش وہاں سے آئی ہے جن کو فائل کھلنے سے پریشانی تھی یہ پریشانی حمود الرحمن کمیشن یا سقوط ڈھاکا کے معاملے میں بھی تھی ۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی مٹی پاؤ کی نذر ہوئی اس کو تو 47 برس ہو گئے اس پر تو کوئی بات بھی نہیں کرتا ۔ اس کیس میں چونکہ کچھ سیاستدانوں کو ملوث کرنا مقصود تھا اس لیے میڈیا کے ذریعے خوب شور مچوایا گیا لیکن یہ پیسے کس نے نکالے ، کیوں تقسیم کیے ، ان لوگوں کو صاف بچانے کے لیے فائل بند کی جا رہی ہے ۔ یوں ایک اور باب بند ہوا۔