یہ 22 فروری 1974 تھا پورا عالم اسلام دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے لیے جمع تھا کشادہ چیئرنگ کراس لاہور، ہال کے اندر اسلامی قیادت جمع ہے اور ہال کے باہر سڑکوں پر اہل پاکستان کا ایک جم غفیر نعرے لگائے جارہے تھے کہ بنگلا دیش نہ منظور اور ہال کے اندر کا منظر یہ تھا کہ بھٹو اور مجیب، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بنگلا دیش منظور کی قرارداد کے لیے بے چین اور بے قرار تھے اس روز لاہور میں دو پاکستان تھے ایک بنگلا دیش منظور کرانے والے اور دوسرے نامنظور کہنے والے، نامنظور کہنے والے محب وطن عام لوگ تھے۔ ڈاکٹر نذیر شہید بھی اسی قافلے میں شامل تھے۔ متحدہ پاکستان کے شیدائی اور اس کے لیے کٹ مرنے والے تھے تاہم یہ بے اختیار تھے مگر ان کے دائیں ہاتھ میں متحدہ پاکستان کا نعرہ اور سبز ہلالی پرچم تھا تاہم کمزور تھے اختیار ان کے پاس تھا جن کے بائیں ہاتھ میں سیاہ سیاسی اعمال نامہ تھا جس میں بنگلا دیش منظور کی قرارداد لکھی ہوئی تھی۔ جس روز یہ قرارداد پاس ہوئی اس روز بلک بلک کر پورا پاکستان رویا۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی آنکھوں کے سامنے مائوں، بہنوں، بیٹیوں جوان مرد، بزرگوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی نہیں رویا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اس وجہ سے کوئی نہیں رویا تھا کیونکہ وہ اپنی منزل پاکستان کے لیے قربان ہو رہے تھے۔ بلاشہ پاکستان کی بنیاد اس روز رکھ دی گئی تھی جب برصغیر میں پہلا مسلمان پیدا ہوا تھا مسلم لیگ تو بہت بعد میں بنی، قیام پاکستان کا یہ سفر کس قدر طویل تھا اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ہاں مسلم لیگ کو یہ موقع ضرور ملا کہ اس کی قیادت میں عالم اسلام کو ایک اسلامی مملکت پاکستان ملا لیکن اسے توڑا کس نے؟ یہ دھبا بھی مسلم لیگ کے ماتھے پر ہی لگا۔ وہ عوامی مسلم لیگ تھی یہ غالباً قیام پاکستان کے چند ماہ بعد کی بات ہے۔ ملک میں چینی اور کوئلے کی شدید قلت ہوگئی، چینی کا متبادل تو گڑ تھا لہٰذا گزارا ہوگیا اب کوئلے کا متبادل کہاں سے لایا جاتا وزارت تجارت جو آئی آئی چندریگر کی سربراہی میں کام کر رہی تھی اسے کوئلہ درآمد کرنے کا ٹاسک ملا کہ کہیں کوئلے سے چلنے والی ریل گاڑیاں ہی نہ بند ہوجائیں۔ ایسا ہوتا تو پا کستان کا سارا سرکاری نظام ہی معطل ہوجاتا۔ بہر حال یہ انتظام کرلیا گیا یوں ایک بحران سے ملک بچ گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد سرکاری دفاتر کے لیے سامان منگوانے کا فیصلہ ہوا جس میں سینیٹری کا سامان بھی شامل تھا اس کے لیے وزیر خزانہ کی سربراہی میں وزیروں کی ایک سب کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات مولوی فضل الرحمن بھی شریک تھے ان کے پاس تعلیم اور داخلہ کا بھی قلم دان تھا انہوں نے تجویز دی کہ سینیٹری کا سامان منگوایا جارہا ہے تو اس میں سے کچھ سامان مشرقی پاکستان کے لیے منگوا لیا جائے۔ اس تجویز کا مذاق اڑایا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ مشرقی پاکستان والوں کو اس سامان کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو کیلوں کے درختوں کی اوٹ میں جاتے ہیں۔ مورخ لکھتے ہیں کہ گویا بنگلا دیش کے قیام کی پہلی اینٹ اسی میٹنگ میں رکھ دی گئی تھی۔
ہماری سیاسی تاریخ میں بائیس فروری 1974 کا دن ایک لمحے میں نہیں آن پہنچا تھا اس کے لیے دانستہ یا نادانستہ بلنڈر کیے گئے۔ ایوب خان کا دور بھی ہماری سیاسی تاریخ میںگزرا ہے۔ یہ 1962 کی بات ہے ایوب خان ملک کے حکمران اور اس وقت جسٹس(ر) منیر ملک کے وزیر قانون تھے، ایوب خان نے ایک تجویز دے کر انہیں ڈھاکا بھیجا، تجویز کیا تھی وہ وہاں جائیں اور مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ مغربی پاکستان سے الگ ہونے کی تگ و دو کریں، منیر یہ تجویز لے کر گئے لیکن مشرقی پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ نے مسترد کردیا اور جواب دیا کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے آپ کو کرنا ہے تو خود یہ کام کریں۔ دیکھیے ہلکی ہلکی آنچ پر جب کوئی ہنڈیا رکھی جائے گی تو ایک دن تو اس میں اُبال آہی جاتا ہے ناں، بس یہی کچھ مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی ہوا اس کے بعد ہی شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات آئے‘ ان میں ملک ٹوٹنے کی بو سب سے پہلے سید مودودی نے محسوس کی۔ 18 فروری 1966 میں ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ چھے نکات میں ملک توڑنے کی سازش کی بو آرہی ہے۔
سید مودودی نے تو پہچان لیا مگر اس وقت کی آمریت چھے نکات کو نہ پہچان سکی اس وقت ملک میں جمہوریت نہیں آمریت کا دور تھا جس نے بنیادی جمہوریت کے ذریعے عوامی رنگ خودپر چڑھا رکھا تھا آج ہم بائیس فروری 2025 میں ہیں۔ اکیاون سال بعد ہم کیسے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟ وہ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے جاچکا تھا اب پانچ اگست 2024 سے واپس آنے لگا ہے اب وہاں شیخ مجیب کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا ہے۔ اب وہاں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بھی بدل دیاگیا ہے۔ بھارت بھی بنگلا دیش بنانے میں پیش پیش تھا اسے ابھی سبق سکھانا باقی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ہمیں ایک نائن الیون سے واسطہ پڑا تھا اور ہم پر ایک ایسا نظام مسلط ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم ہی بدل گیا، ہمارا نصاب ہی بدل کر رکھ دیا گیا، مگر ہم نصاب تعلیم واپس
لائیں گے۔ مشرف کے نصاب تعلیم کے باعث ہی کشمیر کی تحریک آزادی نائن الیون کے اثرات کی نذر ہو ئی تھی اور ہم اب ایک ایسا وکیل ہیں جس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہی یہ کشمیر کی کہانی ہے دوسری جانب ہم افغانستان کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں وہاں بھارت اپنا مکمل کام دکھا رہا ہے۔ اب ہماری یہ سرحد بھی محفوظ نہیں رہی، ایک جانب بھارت مشرقی سرحد پر اور دوسری جانب وہ افغانستان میں ہمارے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے اور ہم بحیثیت قوم بے فکری کی نیند سو رہے ہیں۔ ہمارے خلاف ایک عالمی ایجنڈا متحرک ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری قوم تقسیم ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو آگے بڑھ کر ایک کردار ادا کرنا ہے مگر انہیں تو اپنی تنخواہوں میں اضافے کی فکر تھی سو یہ کام کر لیا گیا۔ عوام کو روٹی ملے نہ ملے اس کی کسی کو پروا ہی نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں ان لوگوں کے لیے کوئی سزا نہیں، کوئی علامتی سزا بھی نہیں جنہوں نے ملک توڑا، اس کے لیے منصوبہ بندی کی، ماحول بنایا اور ایسے لوگوں کو تو عدالت عظمیٰ بھی کہہ دیتی ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا، بھٹو صاحب کے لیے عدلیہ بول پڑی، ڈاکٹر نذیر شہید کے لیے عدلیہ کب بولے گی؟ ان کے لیے عدلیہ کب بیدار ہوگی؟ ہمارے ملک کے ساتھ کس نے کب کیا کھلواڑ کیا۔ ایک بہت بڑے کالم نگار ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ میں متعدد وزیر غیر مسلم تھے۔ ان سے نام پوچھا تو سب سے پہلے انہوں نے آئی آئی چندری گر کا نام لیا۔ جب اس ملک میں ایسے کالم نگار ہوں گے اور تجزیہ کار ہوں گے تو ملک میں پیکا جیسے قانون تو آئیں گے۔