نومولود کے کان میں اذان دینا
سوال: ہمارے یہاں بعض علما کہتے ہیں کہ بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینی چاہیے۔ یہ حضرات اسے سنت بتاتے ہیں۔ براہ کرم اس کی مشروعیت کے بارے میں بتائیے۔ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث مروی ہے؟
جواب: اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کا وقت ہوجانے کا اعلان کرنے کے لیے ہے۔ لیکن بعض دیگر مواقع کے لیے بھی اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں شوافع کے یہاں زیادہ توسّع ہے۔ انھوں نے نومولود کے کان میں اذان دینے کو مسنون عمل قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ بعض مواقع پر مثلاً آتش زدگی کے وقت، راستہ بھٹک جانے کی صورت میں یا مرگی زدہ شخص کے پاس اذان دینے کو جائز کہتے ہیں۔ مالکیہ اس عمل کو مکروہ اور بدعت قرار دیتے ہیں۔ حنابلہ اور احناف کا معاملہ بَین بَین کا ہے۔ وہ اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جس کے یہاں کسی بچے کی ولادت ہو اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے اسے ام الصبیان (بچوں کی مرگی) کا مرض نہیں ہوگا‘‘۔ اسے ابویعلی نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ (تحفتہ الاحوذی شرح جامع الترمذی فیض القدیر، منادی)
البتہ اس سلسلے میں رسولؐ کا عمل ثابت ہے۔ آپؐ کے آزاد کردہ غلام ابورافع بیان کرتے ہیں: ’’میں نے دیکھا ہے کہ جب حسنؓ کی ولادت ہوئی تو رسولؐ نے ان کے کان میں اذان کہی‘‘، (ترمذی) امام ترمذی نے اس کی روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ موجودہ دور کے مشہور محدّث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نومولودکے کان میں اذان دینے کا عمل رسولؐ سے ثابت ہے۔ لیکن اصطلاحی معنی میں اسے سنت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ عہد نبوی میں بہت سے بچوں کی ولادت ہوئی، لیکن مذکورہ واقعے کے علاوہ اور کسی موقع پر آپؐ کے اذان دینے کا تذکرہ روایتوں میں نہیں ملتا۔ صحابہ کرامؓ سے بھی یہ عمل ثابت نہیں ہے۔ البتہ اسے مکروہ اور بدعت کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔
٭…٭…٭
دھوکا اور طلاق
سوال: ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوںنے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بطور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، بلکہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروادی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیا گیا تحفہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ برائے کرم ہماری رہنمائی فرمائیں۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟
جواب: تحائف کے لین دین کو اسلام میں پسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کو باہم محبت میں اضافہ ہونے یا دلوں کا کینہ دور ہونے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ (بخاری فی الادب المفرد، بیہقی) اسی طرح احادیث میں کسی کو تحفہ دے کر واپس لینے کو ناجائز کہا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی چیز تحفے میں دے کر واپس لے لے، ہاں باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے، ایسا کرنے والے کی مثال اس کتّے کی سی ہے جو قے کرکے پھر اسی کو چاٹ لے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) اسی لیے جمہور علما کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کو تحفہ دے کر اسے واپس لینا حرام ہے۔ خواہ یہ معاملہ بھائیوں کے درمیان ہو یا میاں بیوی کے درمیان۔ (فقہ السنۃ)
حدیث میں باپ کے لیے بیٹے کو دیے گئے تحفے کو واپس لینے کے جواز کی بات اپنے عموم پر نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں ہے کہ کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں، اس نے کسی ایک بیٹے کو کوئی چیز تحفے میں دی ہو، دوسرے بیٹوں کو کچھ نہ دیا ہو، تو چوں کہ یہ ناانصافی ہے اس لیے ایک بیٹے کو دیے گئے تحفے کو وہ واپس لے سکتا ہے۔ یہ وضاحت دیگر احادیث میں موجود ہے۔
صورتِ مسؤلہ میں اور بھی کئی غلط کام کیے گئے ہیں۔
1۔اولاد نہ ہونے کی بنا پر بیوی سے قطع تعلق کرلیا، حالانکہ اولاد ہونا یا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے۔ اس میں بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے۔
2۔بیوی کو طلاق مغلظہ دی، حالانکہ یہ طلاق کا غیرمسنون طریقہ ہے۔
3۔بغیر اطلاع دیے (دھوکے سے) گفٹ رجسٹری کو منسوخ کروادیا۔
متعلقہ فرد نے کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کیا ہے۔ انھیں اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ تلافی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ وہ سابقہ بیوی کو تحفے میں دیا گیا مکان واپس کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔