حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی، جس میں ماہرین نے ہنگامی حالات، آفات، موسمیاتی تبدیلیوں، عوامی صحت، اور اقتصادی بحرانوں جیسے خطرات کو کم کرنے کے لیے ڈیٹا پر مبنی تجزیاتی نظام متعارف کرانے، نقل مکانی اور وباؤں جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی ڈیٹا شیئرنگ معاہدے ترتیب دینے اور بنیادی سے اعلیٰ تعلیمی سطح تک ڈیٹا لٹریسی کی تربیت کو فروغ دینے کی سفارشات پیش کیں۔تفصیلات کے مطابق، سندھ زرعی یونیورسٹی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سینٹر اور انسٹیٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز (IEEE) کے اشتراک سے منعقدہ ”ڈیٹا پر مبنی سماجی تبدیلی” سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس 2025 اختتام پذیر ہوگئی۔ دو روزہ کانفرنس میں پیش کیے گئے 226 سے زائد تحقیقی مقالات کے بعد ماہرین نے حکومتوں اور اداروں کو ڈیٹا اینالیٹکس کو پالیسی سازی میں شامل کرنے، ڈیٹا کے اخلاقی اور ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے، ہنگامی حالات، آفات، موسمیاتی تبدیلیوں، عوامی صحت، اور اقتصادی بحرانوں کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ڈیٹا پر مبنی پیشگوئی کے تجزیاتی نظام کے نفاذ، بین الاقوامی ڈیٹا شیئرنگ معاہدوں کی تشکیل، تعلیمی نصاب میں ڈیٹا لٹریسی کو شامل کرنے، مشترکہ تحقیقی و ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے، اخلاقی مصنوعی ذہانت، ڈیٹا جسٹس، اور سماجی اثرات کے جائزے کے لیے تحقیق کو فروغ دینے، تخلیقی مراکز قائم کرنے، اور مختلف ممالک کے کامیاب ڈیٹا پر مبنی ماڈلز سے سیکھنے کے لیے معلومات کے تبادلے کو بڑھانے کی سفارشات پیش کیں۔اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ ڈیٹا پر مبنی سماجی تبدیلی سندھ کے لیے نہایت اہم ہے، جس کے تحت جدید ڈیٹا اینالیٹکس نہ صرف زرعی پیداوار کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ آفات کی پیشگوئی، پانی کی منصفانہ تقسیم، اور موسمی خطرات کی تشخیص کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیٹا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ سائبر کرائمز کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، اس لیے ہمیں ڈیٹا سیکیورٹی، اخلاقی ڈیٹا مینجمنٹ، اور سماجی تحفظ کو ترجیح دینی ہوگی،سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ثناء اللہ عباسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے مادی دنیا سے سائبر اسپیس کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں زراعت، تعلیم، صحت، اور معیشت کا بڑا حصہ آن لائن ڈیٹا پر منحصر ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سائبر سیکیورٹی، رازداری، اور ڈیٹا کے تحفظ کے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں دو بڑے انقلابات نے سماج اور معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے: صنعتی انقلاب، جس نے مشینی پیداوار، صنعتی ترقی، اور تیز رفتار تجارت کو ممکن بنایا، اور اس کے بعد انٹرنیٹ انقلاب، جس نے دنیا کو ڈیجیٹل اسپیس میں داخل کر دیا، جہاں معلومات، تجارت، اور تعلیم سب کچھ آن لائن ہو چکا ہے۔ آج، موسمیاتی تبدیلی، سائبر سیکیورٹی، اور جدید ٹیکنالوجی عالمی ترجیحات بن چکی ہیں۔ثناء اللہ عباسی نے مزید کہا کہ انسانی رویوں اور مشینی برتاؤ کی ترقی کے ساتھ، فیصلہ سازی پر ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کا اثر بڑھ رہا ہے۔ مشینیں انسانی رجحانات کو سمجھ کر پیشگوئیاں کر رہی ہیں، جو سائبر اسپیس، زراعت، تجارت، اور سوشل میڈیا پر نمایاں اثر ڈال رہی ہیں۔کانفرنس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سینٹر کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر میر سجاد تالپر، ڈاکٹر سوھنی عباسی، ڈاکٹر محمد یعقوب کوندھر، اور دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر تکنیکی سیشنز کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ آن لائن سیشنز بھی منعقد کیے گئے۔ کانفرنس میں 25 ممالک کے ماہرین کے تحقیقی مقالات شامل کیے گئے۔