(زرداری اِن پاکستان؟(متین فکری

440
ہم زرداری صاحب پر یہ پھبتی تو نہیں کس سکتے کہ ’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘ اس لیے کہ وہ آنے کے لیے نہیں، جانے کے لیے گھر آئے ہیں اور خبر گرم ہے کہ وہ چند روز میں واپس لوٹ جائیں گے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ دبئی اب ان کے لیے سندھ کا دارالحکومت بن گیا ہے جہاں بیٹھ کر وہ حکومت کی ڈور ہلاتے رہتے ہیں۔ ضرورت پڑتی ہے تو وہ وزیراعلیٰ بلکہ پوری صوبائی کابینہ کو دبئی طلب کرلیتے ہیں۔ سید قائم علی شاہ کے زمانے میں تو یہ طلبی معمول بن گئی تھی۔ اب مراد علی شاہ وزارت اعلیٰ کے تخت پر بیٹھے ہیں تو وہ بھی دبئی یاترا کرچکے ہیں۔ زرداری صاحب بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ البتہ سندھ حکومت نے ان کے شایان شان استقبال کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا، وہ آئے تو اسی دن رینجرز نے ان کے فرنٹ مین انور مجید کے دفتر پر چھاپا مار کر استقبال کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ کہا گیا کہ یہ اشارہ ہے کہ اس بات کا کہ زرداری کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوسکتا ہے اور فوج اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی بھولی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے وضاحت کرتے پھر رہے ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف رینجرز کی کارروائی کراچی آپریشن کا حصہ ہے، اس کا زرداری کی واپسی سے کوئی تعلق نہیں لیکن ’’عقل مند را اشارہ کافی است‘‘ اور زرداری صاحب نے یہ اشارہ بھانپ لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسی کی تقریب میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے بجائے انہوں نے اپنے صاحبزادے کے ہمراہ قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے اس طرح وہ پارلیمنٹ کے حصار میں آجائیں گے اور ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ رہے گا۔ یوں بھی دوستوں کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب احتجاجی تحریک کے آدمی ہر گز نہیں ہیں وہ عملاً جوڑ توڑ کے آدمی ہیں۔ ان کی اب تک کی سیاست اسی جوڑ توڑ کے سہارے چلتی رہی ہے اور آئندہ بھی وہ اسی ہنر کو آزمانے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کرسی نہیں کھینچنا چاہتے۔ یعنی میاں نواز شریف کی کرسی کو کوئی خطرہ نہیں البتہ قومی اسمبلی میں ان کے لیے مشکل ضرور کھڑی کرسکتے ہیں۔
زرداری کی آمد کی خبر سنتے ہی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کراچی پہنچے تھے اور زرداری سے حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد بنانے پر بات چیت کی تھی۔ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ زرداری صاحب نے ان سے اتفاق کیا اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ کیا یہ بیل منڈھے چڑھ سکے گی؟ خود چودھری شجاعت حسین راوی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہر لیڈر وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ کیا اپوزیشن کا اتحاد عمران خان کے بغیر مکمل ہوسکتا ہے؟ سچ پوچھیے تو اس وقت سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر وہی ہیں اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے ان کی بے چینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بلاول زرداری بھی اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم وہ ہوں گے۔ بلاول وزارتِ عظمیٰ کو اپنی خاندانی وراثت سمجھتے ہیں وہ اگرچہ زرداری خاندان سے ہیں لیکن اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے انہوں نے اپنا تعلق بھٹو خاندان سے بھی جوڑ رکھا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کہلاتے ہیں وہ اپنی تقریروں میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
بھٹو اپنے اسٹائل میں بالکل منفرد تھے۔ وہ بلا کے ذہین اور حاضر دماغ تھے۔ بلاول میں یہ خوبیاں کہاں۔ وہ بھٹو کی نقل کرکے اپنا لہجہ بھی بھولتے جارہے ہیں۔ بہرکیف وزارتِ عظمیٰ پر ان کا دعویٰ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ان کے اباحضور اس خواب کو تعبیر کا روپ دینے کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مقصد احتجاجی تحریک سے نہیں جوڑ توڑ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے صدارت کا منصب بھی اسی حکمت عملی سے حاصل کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف جیسا ڈکٹیٹر ہاتھ ملتا رہ گیا تھا۔ فی الحال زرداری صاحب کا درد سر یہ ہے کہ ان کے فرنٹ مینوں کے خلاف کارروائی روکی جائے اور سب سے اہم فرنٹ مین ڈاکٹر عاصم کو رہائی دلوائی جائے۔ عمران خان کے دھرنے کے خلاف زرداری نے میاں نواز شریف کا کھل کر ساتھ دیا تھا اور پوری پارلیمنٹ شریف حکومت کی پشت پر آن کھڑی ہوئی تھی لیکن میاں نواز شریف ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں زرداری کو کچھ بھی ریلیف دینے سے قاصر رہے اور بیچاری ایان علی بھی ابھی تک عدالتوں کے دھکے کھا رہی ہے، اس طرح نواز شریف اور زرداری کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا پھر جب جنرل راحیل شریف کو دھمکی دینے کے بعد زرداری نے میاں صاحب سے ملاقات کرنی چاہی تو میاں صاحب کنی کترا گئے۔ چناں چہ زرداری کو دبئی جانا پڑا۔
اب اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد زرداری صاحب واپس آئے ہیں تو وہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی ملک میں قیام کا فیصلہ کریں گے۔ زرداری سے مفاہمت نواز شریف کی ضرورت بھی ہے اور بڑی حد تک مجبوری بھی۔ وہ زرداری سے مفاہمت کرکے عمران خان کی یلغار سے بچ سکتے ہیں جو ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چار نکاتی مطالبے کو اگرچہ اسحق ڈار نے غیر سنجیدہ قرار دیا ہے لیکن کہا ہے کہ اس پر بات ہوسکتی ہے اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت شروع ہوئی تو زرداری کا پاکستان میں قیام بھی طول پکڑ سکتا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ کیا میاں نواز شریف زرداری کو وہ ریلیف دے سکیں گے جو وہ چاہتے ہیں!