موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں؟جسٹس جمال،کسی صورت ممکن نہیں،سلمان اکرم

26

اسلام آباد (نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہو سکتا یا نہیں؟ جس پر ملٹری کورٹ سے سنائی گئی سزا پر اپیل کنندہ ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔عدالت عظمیٰ میں جسٹس امین الدین
خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائیکورٹ طرز پر تعینات ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو بھیج سکتا ہے، اس پر جسٹس امین الدین نے کہا ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، آپ غیرضروری بحث سے وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ برطانوی قانون تو اپنی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، شہریوں پر کیسے لاگو ہو سکتاہے؟ اس پر سلمان اکرم نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیر سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا، اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تو دلائل غیر متعلقہ ہو سکتے تھے، اب نہیں ہیں۔جسٹس مسرت نے سلمان اکرم سے سوال کیا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ 9 مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ 9 مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔سلمان اکرم نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جا سکتا، ملزمان کو آزاد عدالت اور فیئر ٹرائل کا حق ہے، اے پی ایس والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں اس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ فیئر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل 8/3 سے نکلنا ہوگا۔جسٹس مسرت نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی جبکہ جسٹس حسن رضوی نے کہا فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، دونوں کورز میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنادی جائے؟سلمان اکرم راجا نے کہا الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ مل کر سازش کا الزام ہے، اگر قانون کی شقیں بحال ہوتی ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے سیکشن لگے ہوں گے، جسٹس امین نے سوال کیا کہ کیا آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگی گئی ہے؟سلمان اکرم نے جواب دیا کہ میرے کیس کو چھوڑیں، نظام ایسا ہے کہ الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ، اس موقع پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر مفروضوں پر نہ جائیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم ہوئی تب آپ کی پارٹی نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی یا یوں کہہ دیتی ہوں کہ ایک سیاسی جماعت نے 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کی حمایت کی تھی۔وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ عدالت میں کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا، اس وقت انہوں نے غلط کیا تھا، اس پر جسٹس مسرت نے کہا یہ کیا بات ہوئی کہ اپوزیشن میں آکر کہہ دیں ماضی میں جو ہوا غلط تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے 21 ویں آئینی ترمیم میں ایک نکتہ اچھا تھا کہ سیاسی جماعتوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹر کورٹ اپیلوں پر سماعت 18 فروری تک ملتوی کردی۔