امریکا ، ایک اور جج نے پیدایشی شہریت کیخلاف ٹرمپ کا حکم روک دیا

43

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا میں ایک اور جج نے پیدایشی شہریت کے خلاف ٹرمپ کا حکم نامہ روک دیا ۔ ٹرمپ کا یہ حکم ان کی امیگریشن سے متعلق پالیسی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ حکم نامہ ان لوگوں کے بچوں کی پیدائشی شہریت کا حق ختم کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا جو خود تو غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہیں لیکن ان کے بچوں کو امریکا میں پیدائش کی صورت میں امریکی شہریت مل جاتی تھی۔ اس متنازع فیصلے پر امریکا میں کئی شعبوں کی طرف سے شور اٹھا تھا۔ خبررساں اداروں کے مطابق امریکن سول لبرٹیز یونین نامی تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ٹرمپ کا حکم آئین کے خلاف ہے۔ یہ امریکا کو بنیادی آئینی اقدار سے توڑ دینے کی کوشش ہے۔ درخواست کے بعد نیو ہیمپشائر میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جوزف این لاپلانٹے نے صدارتی حکم کو روک دینے کا فیصلہ سنا یا ۔ یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے سیاٹل اور میری لینڈ کے ججوں کے ایسے ہی فیصلوں کے بعد آیا ہے۔میری لینڈ کی عدالت میں سماعت کے دوران جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔ سپریم کورٹ پیدائشی شہریت کے حق کا تحفظ کرتی ہے، ملک کی کسی بھی عدالت نے کبھی صدر کی تشریح کی توثیق نہیں کی ہے۔ واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے بھی جنوری میں جاری کیے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر 14 روز کا حکم امتناع جاری کردیا تھا۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ نے ایگزیکٹو آرڈر سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے غیر ملکیوں کے بچوں کو امریکا میں پیدا ہونے کی وجہ سے شہریت امریکی آئین کی چودہویں ترمیم کی وجہ سے ملتی ہے جس کا اطلاق 1868 ء سے چلا آرہا ہے۔ امریکا میں ایک بڑی خانہ جنگی کے بعد یہ ترمیم آئی تھی۔ امریکا دنیا کے ان 30 ممالک میں سے ایک ہے جن میں پیدائشی بنیاد پر شہریت کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ حق عام طور پر میکسیکو ، کینیڈا اور اسرائیلیوں کے بچوں کو ملتا رہا ہے۔