ایک عہد، حوصلے اور امید کا دن

146

یوم یکجہتی کشمیر ایک رسمی دن نہیں بلکہ ایک عہد، ایک حوصلہ، ایک امید کا دن ہے۔ یہ دن اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف یہ کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا بلکہ دنیا کو یہ باور کرانا بھی ہے کہ پاکستان کے عوام کشمیر کی آزادی کے بغیر سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور کشمیر کی آزادی تک کشمیری بھائیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم اْن کے پشت پر کھڑی ہے اور وہ دن بھی دور نہیں جب کشمیر آزاد ہوگا اور وہاں کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ کشمیریوں کی جدو جہد کامیاب و کامران ہوگی۔ کشمیریوں کا واحد مطالبہ آزادی ہے اور وہ اپنے اس مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے بہنے کو تیار نہیں۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غیر قانونی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی کوشش سے یکجہتی کشمیر ہر سال با قاعدہ پانچ فروری کو منایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں اور کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کریں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تاریخ ہمیشہ قربانیوں اورجد و جہد کی لازوال داستان رہی۔ وہ ہمیشہ سے اپنی جد و جہد سے تاریخ رقم کرتے آ رہے ہیں۔

یہ دن ایک موقع ہے جب دنیا کو یاد دلایا جاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف سیاسی تنازع نہیں بلکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے اور اس انسانی المیہ کی تاریخ کو کشمیری عوام اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوری 1989 سے لیکر اب تک قابض بھارتی فورسز نے خواتین اور بچوں سمیت 96 ہزار 388 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں اور پر تشدد کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ رپورٹ میں بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے اس دعوے کو بھی بے نقاب کیا گیا کہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے اب تک 1000 مظلوم کشمیریوں کو شہید کیا گیا جن میں 18 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس دوران 251 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست قتل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2 ہزار 480 کشمیریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی اور 25 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح کشمیریوں کا معاشی قتل کرنے کے لیے مکانوں، دوکانوں سمیت ایک ہزار سے زائد املاک کو نزر آتش کیا گیا۔ بھارتی فوج کی طرف سے 150 کے قریب خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں گزشتہ ماہ جنوری میں 6 کم عمر بچوں سمیت 11 کشمیریوں کو شہید کیا اور یہ سب ریاستی مظالم مودی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے لیکر اب تک کے ہیں جس میں مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے صورتحال بہتر ہوئی، یہ محض دنیا کو دھوکا دینے کے مترادف ہے اور کچھ نہیں۔ مذہبی اعتبار سے کشمیر صدیوں سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں اسلام کی روش صوفیا اور علماء کے ذریعے پھیلی جس نے اس خطے کی روایات، تمدن اور طرز زندگی کو تشکیل دیا۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ گہرے مذہبی، ثقافتی اور جزباتی تعلقات قائم رکھے۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور مذہبی آزادی پر قدغن ہے۔ بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے۔ سیکڑوں مساجد کی بے حرمتی، مذہبی اجتماعات پر پابندی اور اسلامی تہواروں کے دوران ریاستی جبر اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں بظاہر سیکولرزم کا راگ الاپنے والا انڈیا کشمیریوں کو ان کی مذہبی تشخص سے محروم رکھنے کی منظم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تنازع نہ صرف زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کا ہے بلکہ ایمان، انصاف اور انسانی وقار کا معاملہ بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی بیسوں قراردادوں کے با وجود کشمیر کے مسائل کا حل نہ ہونا خود اقوام متحدہ کے وقار اور سالمیت کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔